صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ کفالہ کا بیان ۔ حدیث 2202

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (مشرک کے) امن دینے اور اس کے عہد کرنے کا بیان ۔

راوی: یحیی بن بکیر , لیث , عقیل , ابن شہاب , عروہ بن زبیر

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ وَقَالَ أَبُو صَالِحٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيْ النَّهَارِ بُکْرَةً وَعَشِيَّةً فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ مُهَاجِرًا قِبَلَ الْحَبَشَةِ حَتَّی إِذَا بَلَغَ بَرْکَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَکْرٍ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ أَخْرَجَنِي قَوْمِي فَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الْأَرْضِ فَأَعْبُدَ رَبِّي قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ إِنَّ مِثْلَکَ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرَجُ فَإِنَّکَ تَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ وَأَنَا لَکَ جَارٌ فَارْجِعْ فَاعْبُدْ رَبَّکَ بِبِلَادِکَ فَارْتَحَلَ ابْنُ الدَّغِنَةِ فَرَجَعَ مَعَ أَبِي بَکْرٍ فَطَافَ فِي أَشْرَافِ کُفَّارِ قُرَيْشٍ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّ أَبَا بَکْرٍ لَا يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلَا يُخْرَجُ أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يُکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَيَصِلُ الرَّحِمَ وَيَحْمِلُ الْکَلَّ وَيَقْرِي الضَّيْفَ وَيُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَأَنْفَذَتْ قُرَيْشٌ جِوَارَ ابْنِ الدَّغِنَةِ وَآمَنُوا أَبَا بَکْرٍ وَقَالُوا لِابْنِ الدَّغِنَةِ مُرْ أَبَا بَکْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَلْيُصَلِّ وَلْيَقْرَأْ مَا شَائَ وَلَا يُؤْذِينَا بِذَلِکَ وَلَا يَسْتَعْلِنْ بِهِ فَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَائَنَا وَنِسَائَنَا قَالَ ذَلِکَ ابْنُ الدَّغِنَةِ لِأَبِي بَکْرٍ فَطَفِقَ أَبُو بَکْرٍ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ وَلَا يَسْتَعْلِنُ بِالصَّلَاةِ وَلَا الْقِرَائَةِ فِي غَيْرِ دَارِهِ ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَکْرٍ فَابْتَنَی مَسْجِدًا بِفِنَائِ دَارِهِ وَبَرَزَ فَکَانَ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَيَتَقَصَّفُ عَلَيْهِ نِسَائُ الْمُشْرِکِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ يَعْجَبُونَ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ رَجُلًا بَکَّائً لَا يَمْلِکُ دَمْعَهُ حِينَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَأَفْزَعَ ذَلِکَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَأَرْسَلُوا إِلَی ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا لَهُ إِنَّا کُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَکْرٍ عَلَی أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ وَإِنَّهُ جَاوَزَ ذَلِکَ فَابْتَنَی مَسْجِدًا بِفِنَائِ دَارِهِ وَأَعْلَنَ الصَّلَاةَ وَالْقِرَائَةَ وَقَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَائَنَا وَنِسَائَنَا فَأْتِهِ فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَی أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ وَإِنْ أَبَی إِلَّا أَنْ يُعْلِنَ ذَلِکَ فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْکَ ذِمَّتَکَ فَإِنَّا کَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَکَ وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لِأَبِي بَکْرٍ الِاسْتِعْلَانَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَتَی ابْنُ الدَّغِنَةِ أَبَا بَکْرٍ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَقَدْتُ لَکَ عَلَيْهِ فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَی ذَلِکَ وَإِمَّا أَنْ تَرُدَّ إِلَيَّ ذِمَّتِي فَإِنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ الْعَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ قَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنِّي أَرُدُّ إِلَيْکَ جِوَارَکَ وَأَرْضَی بِجِوَارِ اللَّهِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَکَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِکُمْ رَأَيْتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ وَهُمَا الْحَرَّتَانِ فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ حِينَ ذَکَرَ ذَلِکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَعَ إِلَی الْمَدِينَةِ بَعْضُ مَنْ کَانَ هَاجَرَ إِلَی أَرْضِ الْحَبَشَةِ وَتَجَهَّزَ أَبُو بَکْرٍ مُهَاجِرًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رِسْلِکَ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي قَالَ أَبُو بَکْرٍ هَلْ تَرْجُو ذَلِکَ بِأَبِي أَنْتَ قَالَ نَعَمْ فَحَبَسَ أَبُو بَکْرٍ نَفْسَهُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَصْحَبَهُ وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ کَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ

یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین حق پر ہی پایا اور ابوصالح نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ نے بواسطہ یونس زہری، عروہ بن زبیر نے نقل کیا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے فرمایا کہ میں نے اپنے والدین کو جب سے میں نے ہوش سنبھالا دین (اسلام) پر ہی پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ صبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس نہ آتے ہوں، جب مسلمان سخت آزمائش (تکلیف) میں تھے تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے لئے نکلے جب برک غماد پہنچے تو ان سے قارہ کے سردار ابن دغنہ کی ملاقات ہوئی اس نے پوچھا ابوبکر کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھ کو میری قوم نے نکال دیا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیر کروں اور اپنے پروردگار کی عبادت کروں، ابن دغنہ نے کہا کہ تم جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے اور نہ نکالا جا سکتا ہے اس لئے کہ تم بے مال والوں کے لئے کماتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو اور عاجز و مجبور کا بوجھ اٹھاتے ، مہمان کی ضیافت کرتے ہو اور حق (پر قائم رہنے) کی وجہ سے آنے والی مصیبت پر مدد کرتے ہو میں تمہارا پڑوسی ہوں تم لوٹ چلو اور اپنے ملک میں اپنے رب کی عبادت کرو، چنانچہ ابن دغنہ روانہ ہوا اور ابوبکر کو ساتھ لے کر واپس ہوا اور کفار قریش کے سرداروں میں گھوما اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے جو تنگدستوں کے لئے کماتا ہے صلہ رحمی کرتا ہے، عاجزوں کا بوجھ اٹھاتا ہے، مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے، راہ حق میں پیش آنے والی مصیبت میں مدد کرتا ہے چنانچہ قریش نے ابن دغنہ کی پناہ منظور کرلی اور ابوبکر کو امان دے کر ابن دغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو کہہ دو کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کریں، نماز پڑھیں، لیکن ہمیں تکلیف نہ دیں اور نہ اس کا اعلان کریں، اس لئے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور عورتیں فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ ابن دغنہ نے ابوبکر سے یہ کہہ دیا، چنانچہ ابوبکر اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے اور نہ تو نماز اعلانیہ پڑھتے اور نہ قرأت اعلانیہ کرتے پھر ابوبکر کے دل میں کچھ خیال پیدا ہوا، تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی اور باہر نکل کر وہاں نماز اور قرآن پڑھنے لگے، تو مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کے پاس جمع ہو جاتے، ان لوگوں کو اچھا معلوم ہوتا، اور ابوبکر کو دیکھتے رہتے ابوبکر ایسے آدمی تھے کہ بہت روتے اور جب قرآن پڑھتے تو انہیں آنسوؤں پر اختیار نہیں رہتا تھا، مشرکین قریش کے سردار گھبرائے اور ابن دغنہ کو بلا بھیجا وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے ابن دغنہ سے کہا کہ ہم نے ابوبکر کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے پروردگار کی عبادت کریں، لیکن انہوں نے اس سے تجاوز کیا اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالی۔ اعلانیہ نماز اور قرآن پڑھنے لگے اور ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری عورتیں گمراہ نہ ہو جائیں اس لئے ان کے پاس جا کر کہو کہ اگر وہ اپنے گھر کے اندر اپنے رب کی عبادت پر اکتفا کرتے ہیں تو کریں اور اگر اس کو اعلانیہ کرنے سے انکار کریں تو ان سے کہو کہ تمہارا ذمہ واپس کر دیں، اس لئے کہ ہمیں پسند نہیں کہ ہم تمہاری امان کو توڑیں اور نہ ہم ابوبکر کو اعلانیہ عبادت کرنے پر قائم رہنے دے سکتے ہیں، حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ابن دغنہ ابوبکر کے پاس آیا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا ذمہ ایک شرط پر لیا تھا، یا تو اسی پر اکتفا کرو یا میرا ذمہ مجھے واپس کر دو، اس لئے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ عرب اس بات کو سنیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے ذمہ میں لیا تھا، اور میرا ذمہ توڑا گیا، ابوبکر نے جواب دیا کہ میں تیرا ذمہ تجھے واپس دیتا ہوں اور اللہ کی پناہ پر راضی ہوں اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ ہی میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھایا گیا ہے، میں نے ایک کھاری زمین دیکھی، جہاں کھجوروں کے درخت ہیں اور دو پتھر یلے کناروں کے درمیان ہے جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کی، جس نے بھی ہجرت کی مدینہ ہی کی طرف کی اور جو لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے وہ بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے اور ابوبکر نے بھی ہجرت کی تیاری کی، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ٹھہرو مجھے امید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کا حکم ہوگا، ابوبکر نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا آپ کو امید ہے کہ اس کی اجازت ملے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلنے کے لئے رک گئے اور دو اونٹ جو ان کے پاس تھے ان کو چار مہینے تک سمر کے پتے کھلاتے رہے۔

Narrated Aisha:
(wife of the Prophet) Since I reached the age when I could remember things, I have seen my parents worshipping according to the right faith of Islam. Not a single day passed but Allah's Apostle visited us both in the morning and in the evening. When the Muslims were persecuted, Abu Bakr set out for Ethiopia as an emigrant. When he reached a place called Bark-al-Ghimad, he met Ibn Ad-Daghna, the chief of the Qara tribe, who asked Abu Bakr, "Where are you going?" Abu Bakr said, "My people have turned me out of the country and I would like to tour the world and worship my Lord." Ibn Ad-Daghna said, "A man like you will not go out, nor will he be turned out as you help the poor earn their living, keep good relation with your Kith and kin, help the disabled (or the dependents), provide guests with food and shelter, and help people during their troubles. I am your protector. So, go back and worship your Lord at your home." Ibn Ad-Daghna went along with Abu Bakr and took him to the chiefs of Quraish saying to them, "A man like Abu Bakr will not go out, nor will he be turned out. Do you turn out a man who helps the poor earn their living, keeps good relations with Kith and kin, helps the disabled, provides guests with food and shelter, and helps the people during their troubles?"
So, Quraish allowed Ibn Ad-Daghna's guarantee of protection and told Abu- Bakr that he was secure, and said to Ibn Ad-Daghna, "Advise Abu Bakr to worship his Lord in his house and to pray and read what he liked and not to hurt us and not to do these things publicly, for we fear that our sons and women may follow him." Ibn Ad-Daghna told Abu Bakr of all that, so Abu- Bakr continued worshipping his Lord in his house and did not pray or recite Qur'an aloud except in his house. Later on Abu Bakr had an idea of building a mosque in the court yard of his house. He fulfilled that idea and started praying and reciting Qur'an there publicly. The women and the offspring of the pagans started gathering around him and looking at him astonishingly. Abu Bakr was a softhearted person and could not help weeping while reciting Qur'an. This horrified the pagan chiefs of Quraish. They sent for Ibn Ad-Daghna and when he came, they said, "We have given Abu Bakr protection on condition that he will worship his Lord in his house, but he has transgressed that condition and has built a mosque in the court yard of his house and offered his prayer and recited Qur'an in public. We are afraid lest he mislead our women and offspring. So, go to him and tell him that if he wishes he can worship his Lord in his house only, and if not, then tell him to return your pledge of protection as we do not like to betray you by revoking your pledge, nor can we tolerate Abu Bakr's public declaration of Islam (his worshipping)."
'Aisha added: Ibn Ad-Daghna came to Abu Bakr and said, "You know the conditions on which I gave you protection, so you should either abide by those conditions or revoke my protection, as I do not like to hear the 'Arabs saying that Ibn Ad-Daghna gave the pledge of protection to a person and his people did not respect it." Abu Bakr said, "I revoke your pledge of protection and am satisfied with Allah's protection." At that time Allah's Apostle was still in Mecca and he said to his companions, "Your place of emigration has been shown to me. I have seen salty land, planted with date-palms and situated between two mountains which are the two ,Harras." So, when the Prophet told it, some of the companions migrated to Medina, and some of those who had migrated to Ethiopia returned to Medina. When Abu Bakr prepared for emigration, Allah's Apostle said to him, "Wait, for I expect to be permitted to emigrate." Abu Bakr asked, "May my father be sacrificed for your sake, do you really expect that?" Allah's Apostle replied in the affirmative. So, Abu Bakr postponed his departure in order to accompany Allah's Apostle and fed two camels which he had, with the leaves of Samor trees for four months.

یہ حدیث شیئر کریں