صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ مکاتب کرنے کا بیان۔ ۔ حدیث 2457

مکاتب کے مدد چاہنے اور لوگوں سے سوال کرنے کا بیان۔

راوی: عبید بن اسمٰعیل ابواسامہ ہشام اپنے والد (عروہ) سے وہ عائشہ

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ جَائَتْ بَرِيرَةُ فَقَالَتْ إِنِّي کَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَی تِسْعِ أَوَاقٍ فِي کُلِّ عَامٍ وَقِيَّةٌ فَأَعِينِينِي فَقَالَتْ عَائِشَةُ إِنْ أَحَبَّ أَهْلُکِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً وَأُعْتِقَکِ فَعَلْتُ وَيَکُونَ وَلَاؤُکِ لِي فَذَهَبَتْ إِلَی أَهْلِهَا فَأَبَوْا ذَلِکَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِکَ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَکُونَ الْوَلَائُ لَهُمْ فَسَمِعَ بِذَلِکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ خُذِيهَا فَأَعْتِقِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمْ الْوَلَائَ فَإِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَا بَالُ رِجَالٍ مِنْکُمْ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي کِتَابِ اللَّهِ فَأَيُّمَا شَرْطٍ لَيْسَ فِي کِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ کَانَ مِائَةَ شَرْطٍ فَقَضَائُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ مَا بَالُ رِجَالٍ مِنْکُمْ يَقُولُ أَحَدُهُمْ أَعْتِقْ يَا فُلَانُ وَلِيَ الْوَلَائُ إِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ

عبید بن اسماعیل ابواسامہ ہشام اپنے والد (عروہ) سے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ بریرہ میرے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں سے نو اوقیہ چاندی کے عوض اس طور پر کتابت کرلی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی دوں گی اس لئے آپ میری مدد کیجئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں یہ (رقم) انہیں ایک ہی بار دے دوں اور تمہیں آزاد کردوں اور تیری ولاء میں لے لوں گی وہ اپنے مالکوں کے پاس گئی لیکن ان لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا بریرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آکر کہا کہ ان لوگوں نے انکار کیا مگر اس شرط پر کہ ولاء کے مستحق وہی لوگ ہوں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اس کو لے لو اور آزاد کردو ان کے لئے ولاء کی شرط منظور کرلو اس لئے کہ ولاء تو آزاد کرنے والے کو ملتی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا اما بعد تم میں سے بعض لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہے تو وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں لگائے اللہ کا حکم عمل کا زیادہ مستحق ہے اور اللہ کی شرط زیادہ مستحکم ہے تم میں سے بعض کو کیا ہوگیا ہے کہ کہتا ہے اے فلاں آزاد کردے اور اس کی ولاء میں لوں گا ولاء تو صرف وہی لے گا جو آزاد کرے۔

Narrated Aisha:
Buraira came (to 'Aisha) and said, "I have made a contract of emancipation with my masters for nine Uqiyas (of gold) to be paid in yearly installments. Therefore, I seek your help." 'Aisha said, "If your masters agree, I will pay them the sum at once and free you on condition that your Wala' will be for me." Buraira went to her masters but they refused that offer. She (came back) and said, "I presented to them the offer but they refused, unless the Wala' was for them." Allah's Apostle heard of that and asked me about it, and I told him about it. On that he said, "Buy and manumit her and stipulate that the Wala' should be for you, as Wala' is for the liberator." 'Aisha added, "Allah's Apostle then got up amongst the people, Glorified and Praised Allah, and said, 'Then after: What about some people who impose conditions which are not present in Allah's Laws? So, any condition which is not present in Allah's Laws is invalid even if they were one-hundred conditions. Allah's ordinance is the truth, and Allah's condition is stronger and more solid. Why do some men from you say, O so-and-so! manumit the slave but the Wala will be for me? Verily, the Wala is for the liberator."

یہ حدیث شیئر کریں