صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ صلح کا بیان ۔ حدیث 2586

کس طرح (صلح نامہ) لکھا جائے ھذا ما صالح فلاں بن فلاں و فلاں بن فلاں (یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں بن فلاں نے صلح کی اور اگرچہ اس کو قبیلہ یا نسب کی طرف منسوب نہ کرے۔

راوی: عبیداللہ بن موسیٰ اسرائیل ابواسحق براء

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَی أَهْلُ مَکَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَکَّةَ حَتَّی قَاضَاهُمْ عَلَی أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا کَتَبُوا الْکِتَابَ کَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَی عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالُوا لَا نُقِرُّ بِهَا فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاکَ لَکِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ امْحُ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحُوکَ أَبَدًا فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْکِتَابَ فَکَتَبَ هَذَا مَا قَاضَی عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يَدْخُلُ مَکَّةَ سِلَاحٌ إِلَّا فِي الْقِرَابِ وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتَّبِعَهُ وَأَنْ لَا يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَی الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا قُلْ لِصَاحِبِکَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَی الْأَجَلُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبِعَتْهُمْ ابْنَةُ حَمْزَةَ يَا عَمِّ يَا عَمِّ فَتَنَاوَلَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام دُونَکِ ابْنَةَ عَمِّکِ حَمَلَتْهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدٌ وَجَعْفَرٌ فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَحَقُّ بِهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي وَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي وَقَالَ زَيْدٌ ابْنَةُ أَخِي فَقَضَی بِهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا وَقَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ وَقَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْکَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا

عبیداللہ بن موسیٰ اسرائیل ابواسحاق براء سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعد کے مہینہ میں عمرہ کا ارادہ کیا تو مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ ان سے اس بات پر فیصلہ ہوا کہ آئندہ سال تین دن قیام کریں گے جب صلح نامہ لکھنے لگے تو اس کے شروع میں لکھا کہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد اللہ کے رسول راضی ہوئے مکہ والوں نے کہا کہ ہم تو اس کا اقرار نہیں کرتے ہیں، اگر ہم جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو ہم تم کو نہیں روکتے بلکہ تم تو محمد بن عبداللہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور عبداللہ کا بیٹا ہوں پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا رسول اللہ کا لفظ مٹا دو انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں کبھی نہیں اس کو مٹاؤں گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کاغذ اپنے ہاتھ میں لیا اور لکھوایا ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبداللہ وہ مکہ میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے ہتھیار نیام میں ہوں گے اور اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہئے تو اس کو ساتھ لے کر نہیں جائیں گے اور اپنے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ جانے کے بعد اگر وہاں رہنا چاہئے گا تو اسے منع نہیں کریں گے جب دوسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اپنے ساتھی سے کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس چلے جائیں اس لئے کہ مدت گزر چکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی چچا چچا کہتی پیچھے ہوگئی حضرت علی نے اسے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر فاطمہ سے کہا کہ اپنے چچاکی بیٹی کو لے لو انہوں نے اس کو سوار کرلیا تو اس کے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھگڑنے لگے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اس لڑکی کا مستحق ہوں کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعویٰ کیا کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری زوجیت میں ہے (اس لئے میں زیادہ مستحق ہوں) زید نے (اپنے استحقاق کا دعویٰ کیا اور) کہا کہ میرے بھائی کی بیٹی ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا خالہ بمنزلہ ماں کے ہے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے اور جعفر سے فرمایا کہ تم صورت سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو اور زید سے کہا تو ہمارا بھائی اور مولا ہے۔

Narrated Al-Bara:
When the Prophet intended to perform 'Umra in the month of Dhul-Qada, the people of Mecca did not let him enter Mecca till he settled the matter with them by promising to stay in it for three days only. When the document of treaty was written, the following was mentioned: 'These are the terms on which Muhammad, Allah's Apostle agreed (to make peace).' They said, "We will not agree to this, for if we believed that you are Allah's Apostle we would not prevent you, but you are Muhammad bin 'Abdullah." The Prophet said, "I am Allah's Apostle and also Muhammad bin 'Abdullah." Then he said to 'Ali, "Rub off (the words) 'Allah's Apostle' ", but 'Ali said, "No, by Allah, I will never rub off your name." So, Allah's Apostle took the document and wrote, 'This is what Muhammad bin 'Abdullah has agreed upon: No arms will be brought into Mecca except in their cases, and nobody from the people of Mecca will be allowed to go with him (i.e. the Prophet ) even if he wished to follow him and he (the Prophet ) will not prevent any of his companions from staying in Mecca if the latter wants to stay.' When the Prophet entered Mecca and the time limit passed, the Meccans went to 'Ali and said, "Tell your Friend (i.e. the Prophet ) to go out, as the period (agreed to) has passed." So, the Prophet went out of Mecca. The daughter of Hamza ran after them (i.e. the Prophet and his companions), calling, "O Uncle! O Uncle!" 'Ali received her and led her by the hand and said to Fatima, "Take your uncle's daughter." Zaid and Ja'far quarrel ed about her. 'Ali said, "I have more right to her as she is my uncle's daughter." Ja'far said, "She is my uncle's daughter, and her aunt is my wife." Zaid said, "She is my brother's daughter." The Prophet judged that she should be given to her aunt, and said that the aunt was like the mother. He then said to 'All, "You are from me and I am from you", and said to Ja'far, "You resemble me both in character and appearance", and said to Zaid, "You are our brother (in faith) and our freed slave."

یہ حدیث شیئر کریں