صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان ۔ حدیث 582

اذان کی ابتدا کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور جب تم نماز کے لئے اعلان کرتے ہو تو وہ اس سے ہنسی مذاق کرتے ہیں یہ اس سبب سے کہ وہ نادان لوگ ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قول جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کی اذان دی جائے

راوی: محمود بن غیلان , عبدالرزاق , ابن جریج , نافع , ابن عمر

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ يَقُولُ کَانَ الْمُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلَاةَ لَيْسَ يُنَادَی لَهَا فَتَکَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِکَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَی وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ الْيَهُودِ فَقَالَ عُمَرُ أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاةِ

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، ابن جریج، نافع، ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تھے تو نماز کیلئے نماز کے وقت کا اندازہ کر کے جمع ہو جاتے تھے اس وقت تک نماز کے لئے اعلان نہ ہوتا تھا ایک دن مسلمانوں نے اس بارے میں گفتگو کی کہ کوئی اعلان ضرور ہونا چاہئے بعض نے کہا کہ نصاری کے ناقوس کی طرح ایک سنگھ بنالو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ کیوں نہیں ایک آدمی مقرر کر دیتے کہ وہ الصلوۃ پکار دیا کرے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھو اور نماز کی اطلاع کر دیا کرو۔

Narrated Ibn 'Umar: When the Muslims arrived at Medina, they used to assemble for the prayer, and used to guess the time for it. During those days, the practice of Adhan for the prayers had not been introduced yet. Once they discussed this problem regarding the call for prayer. Some people suggested the use of a bell like the Christians, others proposed a trumpet like the horn used by the Jews, but 'Umar was the first to suggest that a man should call (the people) for the prayer; so Allah's Apostle ordered Bilal to get up and pronounce the Adhan for prayers.

یہ حدیث شیئر کریں