صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وحی کا بیان ۔ حدیث 6

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کس طرح شروع ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے تم پر وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد پیغمبروں پر وحی بھیجی ۔

راوی: ابوالیمان , حکم بن نافع , شعیب , زہری , عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ , ابن مسعود

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَکْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَکَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَکُفَّارَ قُرَيْشٍ فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَائَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَائُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَاتَرْجُمَانَهِ فَقَالَ أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا فَقَالَ أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ فَإِنْ کَذَبَنِي فَکَذِّبُوهُ فَوَاللَّهِ لَوْلَا الْحَيَائُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ کَذِبًا لَکَذَبْتُ عَنْهُ ثُمَّ کَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ کَيْفَ نَسَبُهُ فِيکُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْکُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبِعُوَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا قَالَ وَلَمْ تُمْکِنِّي کَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْکَلِمَةِ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَکَيْفَ کَانَ قِتَالُکُمْ إِيَّاهُ قُلْتُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ قَالَ مَاذَا يَأْمُرُکُمْ قُلْتُ يَقُولُ اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَاتْرُکُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُکُمْ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَکَرْتَ أَنَّهُ فِيکُمْ ذُو نَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْکُمْ هَذَا الْقَوْلَ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا قُلْتُ لَوْ کَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ فَلَوْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْکَ أَبِيهِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ لِيَذَرَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ وَيَکْذِبَ عَلَی اللَّهِ وَسَأَلْتُکَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَذَکَرْتَ أَنَّ ضُعَفَائَهُمْ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَذَکَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَکَذَلِکَ أَمْرُ الْإِيمَانِ حَتَّی يَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَغْدِرُ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُکَ بِمَا يَأْمُرُکُمْ فَذَکَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُکُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاکُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَيَأْمُرُکُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ فَإِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِکُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْکُمْ فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَائَهُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بَعَثَ بِهِ مَعَ دِحْيَةِ الکَلبْيِّ إِلَی عَظِيمِ بُصْرَی فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَی إِلَی هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِکَ اللَّهُ أَجْرَکَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْکَ إِثْمَ الْيَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْکِتَابِ کَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي کَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِکُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ وَکَانَ ابْنُ النَّاطُورِ صَاحِبُ إِيلِيَائَ وَهِرَقْلَ سُقُفَّ عَلَی نَصَارَی الشَّأْمِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَائَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدْ اسْتَنْکَرْنَا هَيَأْتَکَ قَالَ ابْنُ النَّاطُورِ وَکَانَ هِرَقْلُ حَزَّائً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِکَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ فَلَا يُهِمَّنَّکَ شَأْنُهُمْ وَاکْتُبْ إِلَی مَدَايِنِ مُلْکِکَ فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنْ الْيَهُودِ فَبَيْنَا هُمْ عَلَی أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِکُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ وَسَأَلَهُ عَنْ الْعَرَبِ فَقَالَ هُمْ يَخْتَتِنُونَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَذَا مُلْکُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ ثُمَّ کَتَبَ هِرَقْلُ إِلَی صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَکَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَی حِمْصَ فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّی أَتَاهُ کِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَی خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَائِ الرُّومِ فِي دَسْکَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَکُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْکُکُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَی الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَلَمَّا رَأَی هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنْ الْإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَيَّ وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَکُمْ عَلَی دِينِکُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَکَانَ ذَلِکَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ قَالَ أبُوعَبْدِ اللهِ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ کَيْسَانَ وَيُونُسُ وَمَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ

ابوالیمان ، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سفیان بن حرب نے بیان کیا کہ ہرقل نے ان کے پاس ایک شخص کو بھیجا (اور وہ اس وقت قریش کے چند سرداروں میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ لوگ شام میں تاجر کی حیثیت سے گئے تھے (یہ واقعہ اس زمانے میں ہوا) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوسفیان اور دیگر کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا، غرض! سب قریش ہرقل کے پاس آئے، یہ لوگ اس وقت ایلیا میں تھے، تو ہرقل نے ان کو اپنے پاس دربار میں طلب کیا، اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے) تھے، پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب بلایا) اپنے ترجمان کو طلب کیا قریشیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں، میں نے کہا میں ان سب سے زیادہ ان کا قریبی رشتہ دار ہوں، یہ سن کر ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو بھی اس کے قریب رکھو، اور ان کو ابوسفیان کی پس پشت کھڑا کردو، پھر ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اگر مجھ سے جھوٹ بیان کرے، تو تم فورا اس کی تکذیب کر دینا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کی غیرت نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو یقینا میں آپ کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا، غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا، وہ یہ تھا کہ اس نے کہا کہ اس کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں، پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس سے پہلے بھی اس بات (نبوت) کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا، کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گذرا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ امیر لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا نہیں، بلکہ کمزور (پھر) ہرقل بولا آیا ان کے پیروکار (روزبروز) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں، میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں، ہرقل بولا، آیا ان میں سے کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد دین کی شدت کے باعث اس دین سے خارج بھی ہوجاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں اور اب ہم ان کی مہلت میں ہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا ایفائے عہد) ، ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے مجھے اور کوئی موقع نہ ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا، ہرقل نے کہا آیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو بولا تمہاری جنگ ان سے کیسی رہتی ہے، میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے، کہ کبھی وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے لے لیتے ہیں (کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرک کی باتیں جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے چھوڑ دو، اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے ان کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں اعلی نسب والے ہیں اور تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (اپنی نبوت کا دعوی) تم میں سے کسی اور نے بھی کیا تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہے جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں، پس میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ ان کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہوگا، تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے ان پر کبھی جھوٹ کی تہمت لگائی گئی ہے، تو تم نے کہا کہ نہیں، پس (اب) میں یقینا جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے، تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، (دراصل) تمام پیغمبروں کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں، تو تم نے بیان کیا کہ وہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں (درحقیقت) ایمان کا کمال کو پہنچنے تک یہی حال ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اس کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے ان کے دین سے ناخوش ہو کر (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں اور ایمان کی یہی صورت ہے، جب کہ اس کی بشاشت دلوں میں بیٹھ جائے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ نہیں (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کی شریک نہ کرو اور تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں، پس اگر تمہاری کہی ہوئی بات سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں، مگر میں یہ نہ جانتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے، پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا، تو یقینا میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے پیروں کو دھوتا، پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (مقدس) خط جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر بصری کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصری نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، منگوایا، اور اس کو پڑھوایا، تو اس میں یہ مضمون تھا اللہ نہایت مہربان رحم کرنے والے کے نام سے (یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف، اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ گے تو (قہرالہی) سے بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا دو گنا ثواب دے گا اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت (کے ایمان نہ لانے) کا گناہ ہوگا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا پروردگار بنائے، اللہ فرماتا ہے کہ پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دنیا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں، ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا کہہ چکا اور (آپکا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں شور زیادہ ہوا، آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیئے گئے، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ (دیکھو تو) ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ خوف رکھتا ہے، پس اس وقت سے مجھے ہمیشہ کے لئے اس کا یقین ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور غالب ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اسلام میں داخل فرمایا اور ابن ناطور ایلیا کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کا سردار تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا، تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہم (اس وقت) آپ کی حالت خراب پاتے ہیں؟ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، نجوم میں مہارت رکھتا تھا اس نے اپنے خواص سے جب کہ انہوں نے پوچھا، یہ کہا کہ میں نے رات کو جب نجوم میں نظر کی، تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہوگیا تو (دیکھو کہ) اس زمانہ کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردیئے جائیں، پس وہ لوگ اپنی اس تدبیر میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر بیان کی، جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی، تو کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے کہ نہیں، لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنے کئے ہوئے ہیں، اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا، تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمانہ کے لوگوں کا بادشاہ ہے، جو روم پر غالب آئے گا، پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ کر بھیجا اور وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پایہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا، پھر حمص سے باہر نہیں جانے پایا کہ اس کے دوست کا خط (اسکے جواب میں) آگیا وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا، طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر لئے جائیں تو وہ بند کر دئیے گئے اور ہرقل (اپنے گھر سے) باہر آیا تو کہا کہ اے روم والو کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے اور (تمہیں) یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی کی بیعت کر لو، تو (اسکے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھا گے، تو کواڑوں کو بند پایا بالآخر جب ہرقل نے اس درجے ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہوگیا، تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ (جب وہ آئے تو ان سے) کہا میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا تھا وہ مجھے معلوم ہوگئی تب لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے، ہرقل کی آخری حالت یہی رہی ابوعبداللہ کہتا ہے کہ اس حدیث کو (شعیب کے علاوہ) صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے (بھی) زہری سے روایت کیا ہے۔

Narrated 'Abdullah bin 'Abbas: Abu Sufyan bin Harb informed me that Heraclius had sent a messenger to him while he had been accompanying a caravan from Quraish. They were merchants doing business in Sham (Syria, Palestine, Lebanon and Jordan), at the time when Allah's Apostle had truce with Abu Sufyan and Quraish infidels. So Abu Sufyan and his companions went to Heraclius at Ilya (Jerusalem). Heraclius called them in the court and he had all the senior Roman dignitaries around him. He called for his translator who, translating Heraclius's question said to them, "Who amongst you is closely related to that man who claims to be a Prophet?" Abu Sufyan replied, "I am the nearest relative to him (amongst the group)."
Heraclius said, "Bring him (Abu Sufyan) close to me and make his companions stand behind him." Abu Sufyan added, Heraclius told his translator to tell my companions that he wanted to put some questions to me regarding that man (The Prophet) and that if I told a lie they (my companions) should contradict me." Abu Sufyan added, "By Allah! Had I not been afraid of my companions labeling me a liar, I would not have spoken the truth about the Prophet. The first question he asked me about him was:
'What is his family status amongst you?'
I replied, 'He belongs to a good (noble) family amongst us.'
Heraclius further asked, 'Has anybody amongst you ever claimed the same (i.e. to be a Prophet) before him?'
I replied, 'No.'
He said, 'Was anybody amongst his ancestors a king?'
I replied, 'No.'
Heraclius asked, 'Do the nobles or the poor follow him?'
I replied, 'It is the poor who follow him.'
He said, 'Are his followers increasing decreasing (day by day)?'
I replied, 'They are increasing.'
He then asked, 'Does anybody amongst those who embrace his religion become displeased and renounce the religion afterwards?'
I replied, 'No.'
Heraclius said, 'Have you ever accused him of telling lies before his claim (to be a Prophet)?'
I replied, 'No.'
Heraclius said, 'Does he break his promises?'
I replied, 'No. We are at truce with him but we do not know what he will do in it.' I could not find opportunity to say anything against him except that.
Heraclius asked, 'Have you ever had a war with him?'
I replied, 'Yes.'
Then he said, 'What was the outcome of the battles?'
I replied, 'Sometimes he was victorious and sometimes we.'
Heraclius said, 'What does he order you to do?'
I said, 'He tells us to worship Allah and Allah alone and not to worship anything along with Him, and to renounce all that our ancestors had said. He orders us to pray, to speak the truth, to be chaste and to keep good relations with our Kith and kin.'
Heraclius asked the translator to convey to me the following, I asked you about his family and your reply was that he belonged to a very noble family. In fact all the Apostles come from noble families amongst their respective peoples. I questioned you whether anybody else amongst you claimed such a thing, your reply was in the negative. If the answer had been in the affirmative, I would have thought that this man was following the previous man's statement. Then I asked you whether anyone of his ancestors was a king. Your reply was in the negative, and if it had been in the affirmative, I would have thought that this man wanted to take back his ancestral kingdom.
I further asked whether he was ever accused of telling lies before he said what he said, and your reply was in the negative. So I wondered how a person who does not tell a lie about others could ever tell a lie about Allah. I, then asked you whether the rich people followed him or the poor. You replied that it was the poor who followed him. And in fact all the Apostle have been followed by this very class of people. Then I asked you whether his followers were increasing or decreasing. You replied that they were increasing, and in fact this is the way of true faith, till it is complete in all respects. I further asked you whether there was anybody, who, after embracing his religion, became displeased and discarded his religion. Your reply was in the negative, and in fact this is (the sign of) true faith, when its delight enters the hearts and mixes with them completely. I asked you whether he had ever betrayed. You replied in the negative and likewise the Apostles never betray. Then I asked you what he ordered you to do. You replied that he ordered you to worship Allah and Allah alone and not to worship any thing along with Him and forbade you to worship idols and ordered you to pray, to speak the truth and to be chaste. If what you have said is true, he will very soon occupy this place underneath my feet and I knew it (from the scriptures) that he was going to appear but I did not know that he would be from you, and if I could reach him definitely, I would go immediately to meet him and if I were with him, I would certainly wash his feet.' Heraclius then asked for the letter addressed by Allah's Apostle which was delivered by Dihya to the Governor of Busra, who forwarded it to Heraclius to read. The contents of the letter were as follows: "In the name of Allah the Beneficent, the Merciful (This letter is) from Muhammad the slave of Allah and His Apostle to Heraclius the ruler of Byzantine. Peace be upon him, who follows the right path. Furthermore I invite you to Islam, and if you become a Muslim you will be safe, and Allah will double your reward, and if you reject this invitation of Islam you will be committing a sin by misguiding your Arisiyin (peasants). (And I recite to you Allah's Statement:)
'O people of the scripture! Come to a word common to you and us that we worship none but Allah and that we associate nothing in worship with Him, and that none of us shall take others as Lords beside Allah. Then, if they turn away, say: Bear witness that we are Muslims (those who have surrendered to Allah).' (3:64).
Abu Sufyan then added, "When Heraclius had finished his speech and had read the letter, there was a great hue and cry in the Royal Court. So we were turned out of the court. I told my companions that the question of Ibn-Abi-Kabsha) (the Prophet Muhammad) has become so prominent that even the King of Bani Al-Asfar (Byzantine) is afraid of him. Then I started to become sure that he (the Prophet) would be the conqueror in the near future till I embraced Islam (i.e. Allah guided me to it)."
The sub narrator adds, "Ibn An-Natur was the Governor of llya' (Jerusalem) and Heraclius was the head of the Christians of Sham. Ibn An-Natur narrates that once while Heraclius was visiting Ilya' (Jerusalem), he got up in the morning with a sad mood. Some of his priests asked him why he was in that mood? Heraclius was a foreteller and an astrologer. He replied, 'At night when I looked at the stars, I saw that the leader of those who practice circumcision had appeared (become the conqueror). Who are they who practice circumcision?' The people replied, 'Except the Jews nobody practices circumcision, so you should not be afraid of them (Jews).
'Just issue orders to kill every Jew present in the country.'
While they were discussing it, a messenger sent by the king of Ghassan to convey the news of Allah's Apostle to Heraclius was brought in. Having heard the news, he (Heraclius) ordered the people to go and see whether the messenger of Ghassan was circumcised. The people, after seeing him, told Heraclius that he was circumcised. Heraclius then asked him about the Arabs. The messenger replied, 'Arabs also practice circumcision.'
(After hearing that) Heraclius remarked that sovereignty of the 'Arabs had appeared. Heraclius then wrote a letter to his friend in Rome who was as good as Heraclius in knowledge. Heraclius then left for Homs. (a town in Syrian and stayed there till he received the reply of his letter from his friend who agreed with him in his opinion about the emergence of the Prophet and the fact that he was a Prophet. On that Heraclius invited all the heads of the Byzantines to assemble in his palace at Homs. When they assembled, he ordered that all the doors of his palace be closed. Then he came out and said, 'O Byzantines! If success is your desire and if you seek right guidance and want your empire to remain then give a pledge of allegiance to this Prophet (i.e. embrace Islam).'
(On hearing the views of Heraclius) the people ran towards the gates of the palace like onagers but found the doors closed. Heraclius realized their hatred towards Islam and when he lost the hope of their embracing Islam, he ordered that they should be brought back in audience.
(When they returned) he said, 'What already said was just to test the strength of your conviction and I have seen it.' The people prostrated before him and became pleased with him, and this was the end of Heraclius's story (in connection with his faith).

یہ حدیث شیئر کریں