صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ مخلوقات کی ابتداء کا بیان ۔ حدیث 458

باب (نیو انٹری)

راوی:

بَاب فِي النُّجُومِ وَقَالَ قَتَادَةُ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ خَلَقَ هَذِهِ النُّجُومَ لِثَلَاثٍ جَعَلَهَا زِينَةً لِلسَّمَاءِ وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ وَعَلَامَاتٍ يُهْتَدَى بِهَا فَمَنْ تَأَوَّلَ فِيهَا بِغَيْرِ ذَلِكَ أَخْطَأَ وَأَضَاعَ نَصِيبَهُ وَتَكَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَشِيمًا مُتَغَيِّرًا وَالْأَبُّ مَا يَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالْأَنَامُ الْخَلْقُ بَرْزَخٌ حَاجِبٌ وَقَالَ مُجَاهِدٌ أَلْفَافًا مُلْتَفَّةً وَالْغُلْبُ الْمُلْتَفَّةُ فِرَاشًا مِهَادًا كَقَوْلِهِ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ نَكِدًا قَلِيلًا

ستارہ کا بیان قتادہ نے آیت کریمہ اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا“ کے ماتحت فرمایا کہ ان ستاروں کی تخلیق کے تین مقصود ہیں نمبر۱ آسمان کی زینت بنانا نمبر۲ شیاطین کو مارنا نمبر ۳ رہنمائی کا ذریعہ جس نے ان تینوں کے علاوہ ستاروں کے بارے میں اور کچھ تاویل کی تو اس نے غلطی کی اور اپنے حصہ کو ضائع کر دیا اور ایسی چیز میں سر مارا جس کا اسے کچھ بھی علم نہیں۔ ابن عباس نے فرمایا ہشیما یعنی متغیر ”الاب“ یعنی وہ چارہ جو مویشی کھاتے ہیں ”الانام“ یعنی مخلوق”برزخ“ یعنی آرا اور حاجب‘ اور مجاہد نے فرمایا اتفاقاً یعنی لپٹے ہوئے” الغلب“ یعنی لپٹے ہوئے ”فراشا“ یعنی بچھونا‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ اور تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنے کی وجہ ہے‘ نکداً یعنی تھوڑا اور کم۔

یہ حدیث شیئر کریں