صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ فضائل کا بیان ۔ حدیث 1908

سیدنا ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بیان میں

راوی: عباس بن عبدالعظیم عنبر احمد بن جعفر معقری نضر ابن محمد یمامی عکرمہ ابوزمیل ابن عباس

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا النَّضْرُ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إِلَی أَبِي سُفْيَانَ وَلَا يُقَاعِدُونَهُ فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ قَالَ نَعَمْ قَالَ عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ أُزَوِّجُکَهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ وَمُعَاوِيَةُ تَجْعَلُهُ کَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَتُؤَمِّرُنِي حَتَّی أُقَاتِلَ الْکُفَّارَ کَمَا کُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ وَلَوْلَا أَنَّهُ طَلَبَ ذَلِکَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَاهُ ذَلِکَ لِأَنَّهُ لَمْ يَکُنْ يُسْأَلُ شَيْئًا إِلَّا قَالَ نَعَمْ

عباس بن عبدالعظیم عنبر احمد بن جعفر معقری نضر ابن محمد یمامی عکرمہ ابوزمیل حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ مسلمان نہ تو ابوسفیان کی طرف دیکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس بیٹھتے تھے۔ تو ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے نبی تین باتیں مجھے عطا فرمائیں آپ نے فرمایا :جی ہاں! بتاؤ۔ عرض کیا: میری بیٹی ام حبیبہ بنت ابوسفیان اہل عرب سے حسین و جمیل ہیں میں اس کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہتر عرض کیا اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے لئے کاتب مقرر کر لیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم دیں کہ میں کفار سے لڑتا رہوں جیسا کہ میں مسلمانوں سے لڑتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہتر ابوزمیل نے کہا اگر یہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام نہ فرماتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس بھی چیز کا مطالبہ کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں ہاں ہی فرماتے تھے۔

Ibn Abbas reported that the Muslims neither looked to Abu Sufyan (with respect) nor did they sit in his company. he (Abu Sufyan) said to Allah's Apostle (may peace be upon him): Allah's Apostle, confer upon me three things. He replied in the affirmative. He (further) said: I have with me the most handsome and the best (woman) Umm Habiba, daughter of Abu Sufyan; marry her, whereupon he said: Yes. And he again said: Accept Mu'awiya to serve as your scribe. He said: Yes. He again said: Make me the commander (of the Muslim army) so that I should fight against the unbelievers as I fought against the Muslims. He said: Yes. Abu Zumnail said: If he had not asked for these three things from Allah's Apostle (may peace be upon him), he would have never conferred them upon him, for it was (his habit) to accede to everybody's (earnest) request.

یہ حدیث شیئر کریں