سنن نسائی ۔ جلد سوم ۔ فئی تقسیم کر نے سے متعلق ۔ حدیث 442

مال فئے کی تقسیم

راوی: ہارون بن عبداللہ , عثمان بن عمر , یونس بن یزید , زہری , یزید بن ہرمز

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ خَرَجَ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَی لِمَنْ تُرَاهُ قَالَ هُوَ لَنَا لِقُرْبَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ وَقَدْ کَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا شَيْئًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا فَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ وَکَانَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيْهِمْ أَنْ يُعِينَ نَاکِحَهُمْ وَيَقْضِيَ عَنْ غَارِمِهِمْ وَيُعْطِيَ فَقِيرَهُمْ وَأَبَی أَنْ يَزِيدَهُمْ عَلَی ذَلِکَ

ہارون بن عبد اللہ، عثمان بن عمر، یونس بن یزید، زہری، یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری (نامی شخص جو کہ خوارج کا سردار تھا) جب وہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے فتنہ میں نکلا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس اس نے کہلوایا کہ ذوی القری کا حصہ کن لوگوں کو ملنا چاہیے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا وہ حصہ ہمارا ہے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتہ داری رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ان ہی لوگوں میں تقسیم فرما دیا (یعنی قبیلہ بنوہاشم اور قبیلہ بنو مطلب میں) اور حضرت عمر نے ہم کو یہ دینا چاہا تھا کہ وہ ہم لوگوں کے حق سے کم دیتے تھے تو ہم نے وہ نہیں لیا انہوں نے کہا تھا کہ ہم رشتہ داری کرنے والے کی مدد کریں گے اور ان میں جو شخص مقروض ہوگا اس کا قرضہ ادا کریں گے اور جو غریب اور نادار ہوگا ہم اس کو دیں گے اور اس سے زیادہ دینے سے ان لوگوں نے انکار کر دیا۔

It was narrated that Al Awza’i said: “Umar bin ‘Abdul Aziz wrote a letter to ‘Umar bin Al-Walid in which he said: ‘The share that your father gave to you was the entire Khumus, but the share that your father is entitled to is the same as that of any man among the Muslims, on which is due the rights of Allah and His Messenger, and of relatives, orphans, the poor and wayfarers. How many will dispute with your father on the Day of Resurrection! How can he be saved who has so many disputants? And your openly allowing musical instruments and wind instruments is an innovation in Islam. I was thinking of sending someone to you who would cut off your evil long hair.” (Sahih).

یہ حدیث شیئر کریں