جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 1605

لڑائی سے پہلے اسلام کی دعوت دینا۔

راوی: قتیبہ , ابوعوانہ , عطاء بن سائب , ابوبختری

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ أَنَّ جَيْشًا مِنْ جُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ کَانَ أَمِيرَهُمْ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ حَاصَرُوا قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أَلَا نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ قَالَ دَعُونِي أَدْعُهُمْ کَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوهُمْ فَأَتَاهُمْ سَلْمَانُ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنْکُمْ فَارِسِيٌّ تَرَوْنَ الْعَرَبَ يُطِيعُونَنِي فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ فَلَکُمْ مِثْلُ الَّذِي لَنَا وَعَلَيْکُمْ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْنَا وَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا دِينَکُمْ تَرَکْنَاکُمْ عَلَيْهِ وَأَعْطُونَا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ قَالَ وَرَطَنَ إِلَيْهِمْ بِالْفَارِسِيَّةِ وَأَنْتُمْ غَيْرُ مَحْمُودِينَ وَإِنْ أَبَيْتُمْ نَابَذْنَاکُمْ عَلَی سَوَائٍ قَالُوا مَا نَحْنُ بِالَّذِي نُعْطِي الْجِزْيَةَ وَلَکِنَّا نُقَاتِلُکُمْ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أَلَا نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ قَالَ لَا فَدَعَاهُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَی مِثْلِ هَذَا ثُمَّ قَالَ انْهَدُوا إِلَيْهِمْ قَالَ فَنَهَدْنَا إِلَيْهِمْ فَفَتَحْنَا ذَلِکَ الْقَصْرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحَدِيثُ سَلْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ أَبُو الْبَخْتَرِيِّ لَمْ يُدْرِکْ سَلْمَانَ لِأَنَّهُ لَمْ يُدْرِکْ عَلِيًّا وَسَلْمَانُ مَاتَ قَبْلَ عَلِيٍّ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَی هَذَا وَرَأَوْا أَنْ يُدْعَوْا قَبْلَ الْقِتَالِ وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِنْ تُقُدِّمَ إِلَيْهِمْ فِي الدَّعْوَةِ فَحَسَنٌ يَکُونُ ذَلِکَ أَهْيَبَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا دَعْوَةَ الْيَوْمَ و قَالَ أَحْمَدُ لَا أَعْرِفُ الْيَوْمَ أَحَدًا يُدْعَی و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا يُقَاتَلُ الْعَدُوُّ حَتَّی يُدْعَوْا إِلَّا أَنْ يَعْجَلُوا عَنْ ذَلِکَ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَقَدْ بَلَغَتْهُمْ الدَّعْوَةُ

قتیبہ، ابوعوانہ، عطاء بن سائب، ابوبختری کہتے ہیں کہ سلمان فارسی کی قیادت میں ایک لشکر نے فارس کے ایک قلعے کا محاصرہ کیا تو لوگوں نے عرض کیا اے ابوعبداللہ ان پر دھاوا نہ بول دیں۔ حضرت سلمان فارسی نے فرمایا مجھے ان کو اسلام کی دعوت دے لینے دو جس طرح میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت اسلام دیتے سنا ہے۔ چنانچہ حضرت سلمان ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم ہی میں سے ایک فارسی آدمی ہوں تم دیکھ رہے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں۔ پس اگر تم اسلام قبول کرلو تو تمہارے لئے بھی وہی کچھ ہوگا جو ہمارے لئے ہے اور تم پر بھی وہی بابت لازم ہوگی جو ہم پر لازم ہے اور اگر تم اپنے دین پر قائم رہو گے تو ہم تمہیں اسی پر چھوڑیں گے لیکن تمہیں ذلت قبول کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں جزیہ دینا ہوگا۔ راوی کہتے ہیں کہ سلمان نے یہ تقریر فارسی زبان میں کی اور پھر یہ بھی کہا کہ اگر تم لوگ انکار کرو گے تو یہ تمہارے لئے بہتر نہیں ہے ہم تم لوگوں کو آگاہ کرنے کے بعد جنگ کریں گے۔ انہوں نے کہا ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو تمہیں جزیہ دے دیں بلکہ ہم جنگ کریں گے۔ لشکر والوں (یعنی مسلمانوں) نے کہا اے ابوعبد اللہ۔ کیا ہم ان سے لڑائی نہ لڑیں۔ آپ نے فرمایا نہیں راوی کہتے ہیں آپ نے وہیں تین دن تک اسی طرح اسلام کی دعوت دی پھر فرمایا جہاد کے لئے بڑھو۔ پس ہم ان کی طرف بڑھے اور وہ قلعہ فتح کر لیا۔ اس باب میں حضرت بریدہ نعمان بن مقرن، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی احادیث منقول ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف عطاء بن سائب کی روایت سے جانتے ہیں۔ (امام ترمذی کہتے ہیں) میں نے امام بخاری کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابوالبختری نے حضرت سلمان کو نہیں پایا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ان کا سماع ثابت نہیں اور حضرت سلمان، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔ صحابہ کرام اور دیگر اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ لڑائی سے پہلے اسلام کی طرف بلایا جائے۔ اسحاق بن ابراہیم کا بھی یہی قول ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر انہیں پہلے دعوت دی جائے تو یہ اچھا ہے اور رعب کا باعث ہے۔ بعض اہل علم فرماتے ہیں۔ کہ اس دور میں دعوت اسلام کی ضرورت نہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں مجھے علم نہیں کہ آج بھی کسی کو دعوت اسلام کی ضرورت ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ دشمن کو اسلام کی دعوت دینے سے پہلے جنگ نہ لڑی جائے جب تک کہ وہ جلدی نہ کریں اور اگر انہیں دعوت نہ دی گئی تو انہیں پہلے ہی دعوت اسلام پہنچ چکی ہے۔

Abu Bakhtari narrated: A Muslim army led by Sayyidina Salman Farisi (RA) surrounded one of the Persian forts. The men said to him, “0 Abu Abdullah, shall we not pounce on them?’ He said, ‘Let me invite them (to Islam). I had heard Allah’s Messenger (SAW) invite them (the enemy).” So, Salman went to them and said, “Indeed, I am a man of you, a Persian. You see the Arabs obey me. Thus, if you submit to Islam then for you is the like of what is for us and on you is that which is on us. And if you reject only to stay on your religion then we will leave at that and you will pay us the jizyah with your hands, disgraced.” The narrator said that Salman (RA) spoke in Persian and also said, “You are not praiseworthy. And if you refuse, we warn you of had things.” They said, “We are not among those who pay the jizyah, hut we will fight you.” The (Muslim) men said, “0 Abu Abdullah, shall we not pounce on them?” He said, ‘No” He invited them in this way for three days and after that said, “Pounce on them. The narrator said: We poured ourselves over them and we conquered that fort.

They say that this creates a greater awe among the enemy. Some other ulama say that in these days there is no need to invite them to Isam. Imam Ahmad said: I do not know if anyone needs that today. But, Imam Shafi’i said : War should not commence before giving the enemy an invitation, but if they launch an attack beforehand then there is no harm in not inviting them.

——————————————————————————–

یہ حدیث شیئر کریں