جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ مناقب کا بیان ۔ حدیث 1586

باب نبوت کی ابتداء کے متعلق

راوی: فصل بن سہل ابوالعباس اعرج بغدادی , عبدالرحمن بن غزوان , یونس بن ابواسحاق , ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری , ابوموسی اشعری

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ أَبُو نُوحٍ أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ أَبِي مُوسَی عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَهُمْ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ الرَّاهِبُ وَکَانُوا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّونَ بِهِ فَلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ قَالَ فَهُمْ يَحُلُّونَ رِحَالَهُمْ فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمْ الرَّاهِبُ حَتَّی جَائَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ هَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مَا عِلْمُکَ فَقَالَ إِنَّکُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنْ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ قَالَ أَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ فَلَمَّا دَنَا مِنْ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوهُ إِلَی فَيْئِ الشَّجَرَةِ فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيْئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ فَقَالَ انْظُرُوا إِلَی فَيْئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ قَالَ فَبَيْنَمَا هُوَ قَائِمٌ عَلَيْهِمْ وَهُوَ يُنَاشِدُهُمْ أَنْ لَا يَذْهَبُوا بِهِ إِلَی الرُّومِ فَإِنَّ الرُّومَ إِذَا رَأَوْهُ عَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ فَيَقْتُلُونَهُ فَالْتَفَتَ فَإِذَا بِسَبْعَةٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنْ الرُّومِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ فَقَالَ مَا جَائَ بِکُمْ قَالُوا جِئْنَا إِنَّ هَذَا النَّبِيَّ خَارِجٌ فِي هَذَا الشَّهْرِ فَلَمْ يَبْقَ طَرِيقٌ إِلَّا بُعِثَ إِلَيْهِ بِأُنَاسٍ وَإِنَّا قَدْ أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بُعِثْنَا إِلَی طَرِيقِکَ هَذَا فَقَالَ هَلْ خَلْفَکُمْ أَحَدٌ هُوَ خَيْرٌ مِنْکُمْ قَالُوا إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بِطَرِيقِکَ هَذَا قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَهُ هَلْ يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ مِنْ النَّاسِ رَدَّهُ قَالُوا لَا قَالَ فَبَايَعُوهُ وَأَقَامُوا مَعَهُ قَالَ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ أَيُّکُمْ وَلِيُّهُ قَالُوا أَبُو طَالِبٍ فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُو طَالِبٍ وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُو بَکْرٍ بِلَالًا وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنْ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

فصل بن سہل ابوالعباس اعرج بغدادی، عبدالرحمن بن غزوان، یونس بن ابواسحاق، ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری، حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوطالب تجارت کے لئے شام کی طرف گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے ساتھ چل دیئے۔ قریش کے شیوخ بھی ساتھ تھے۔ جب وہ لوگ راہب کے پاس پہنچے تو ابوطالب اترے، لوگوں نے بھی اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کے پاس آیا۔ یہ لوگ ہمیشہ وہاں سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ نہ ان لوگوں کے پاس آیا اور نہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوا۔ حضرت ابوموسی فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ راہب ان کے درمیان گھس گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا کہ یہ تمام جہانوں کے سردار ہیں۔ یہ تمام جہانوں کے مالک رسول ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجیں گے۔ قریش کے مشائخ کہنے لگے کہ تمہیں یہ کس طرح معلوم ہوا؟ کہنے لگا کہ جب تم لوگ اس ٹیلے پر سے اترے تو کوئی پتھر یا درخت ایسا نہیں رہا جو سجدہ میں نہ گر گیا ہو اور یہ نبی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے۔ میں انہیں نبوت کی مہر سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے شانے کی اوپر والی ہڈی پر سیب کی طرح ثبت ہے۔ پھر واپس گیا اور ان کے لئے کھانا تیار کیا جب وہ کھانا لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹ چرانے کیلئے گئے ہوئے تھے۔ راہب کہنے لگا کہ کسی کو بھیج کر انہیں بلاؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لائے تو بدلی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ کئے ہوئے ساتھ چل رہی تھی۔ لوگ درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیٹھے تو درخت جھک گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ ہوگیا۔ راہب کہنے لگا دیکھو درخت بھی ان کی طرف جھک گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ ہوگیا ہے۔ راہب کہنے لگا دیکھو درخت بھی ان کی طرف جھک گیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ وہیں کھڑا انہیں قسم دے کر کہنے لگا کہ انہیں روم نہ لے جاؤ۔ وہاں کے لوگ انہیں دیکھ کر ان کے اوصاف سے پہچان لیں گے اور قتل کر دیں گے۔ پھر راہب متوجہ ہوا تو دیکھا کہ سات رومی آئے ہیں اور ان سے پوچھنے لگے کہ کیوں آئے ہو؟ وہ کہنے لگے کہ ہم اس لئے آئے ہیں کہ یہ نبی اس مہینے میں (گھر سے) باہر نکلنے والے ہیں۔ لہذا ہر راستے پر کچھ لوگ بٹھائے گئے ہیں جب ہمیں تمہارا پتہ چلا تو ہمیں اس طرف بھیج دیا گیا۔ راہب نے پوچھا کہ کیا تمہارے پیچھے بھی کوئی ہے جو تم سے بہتر ہو۔ کہنے لگے کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ (نبی) تمہارے راستے میں ہے۔ راہب کہنے لگا دیکھو اگر اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ کرلیں تو یا کوئی شخص انہیں روک سکتا ہے؟ کہنے لگا نہیں۔ راہب نے کہا کہ پھر ان کے ہاتھ پر بیعت کرو اور ان کے ساتھ رہو۔ پھر وہ (راہب) اہل مکہ سے مخاطب ہوا اور قسم دے کر پوچھا کہ ان کا سر پرست کون ہے۔ انہوں نے کہا ابوطالب۔ وہ انہیں قسمیں دیتا رہا یہاں تک کہ ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس بھیج دیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس راہب کے پاس بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زاد راہ کے طور پر زیتون اور روٹیاں دیں۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

Sayyidina Abu Musa Ash’ary (RA) narrated: Abu Talib set forth for Syria and the Prophet (SAW) travelled with him, elders of the Quraysh wene part of the caravan. When they reached the monk, he came down (his hermitage). They unfastened the saddles of their animals and he came to them though before that they used to pass by him, he never came out and never paid attention to them. As they were unpacking their saddles, he mingled amomg them till he came to Allah’s Messenger (SAW) and held his hand, saying, “He is the chief of the universe. He is the Messenger of the Lord of the worlds. Allah has sent him as mercy to the worlds.” The elders among the Quraysh asked him how he could say that and he answered, “While you were coming down the hillock, none of the stones and trees missed prostrating before him, and these two (objects) do not prostrate but to a Prophet. And I recognise him by the seal of prophethood on the upper bone on his shoulder, firm like an apple.’ Then he went away and prepared a meal for them. When he brought it to them, the Prophet (SAW) had taken the camels to graze. He said, “Send for him.” He came while a small cloud cast its shadow over him. When he came to the people, he found that they had preceded him to the shade of the trees. When he sat down, the tree bowed towards him and cast its shade over him. The monk pointed out, “Observe the tree bowing to him.” The narrator reported that while he was standing among them, he entreated them that they should not take him to Rome, “for, when the Romans see him, they will recognise him from the descriptions and will kill him.” Then he turned and suddenly seven Romans came whom he received and asked, “What has brought you here?” They said, “We have come, that this Prophet will emerge this month. We have left no road but sent people there. When we received news of him, we were sent on your path, this one.” He asked, “Is there anyone behind you and better than you?” They repeated that they were informed that he was on his path-that one.

The monk asked them, ‘Think if God decides to do something, can one of mankind avert it?” They said, “No.” So, he said, “Pledge allegiance to him and support him.” Then he asked (the Quraysh) I adjure you by Allah, who is his guardian? They said, “Abu Talib.” So he did not cease to adjure him till he sent him back and Abu Bakr sent with him Bilal and the monk provided him biscuits and olives.

——————————————————————————–

یہ حدیث شیئر کریں