جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ حدیث کی علتوں اور راویوں کا بیان ۔ حدیث 1939

حدیث کی علتوں اور راویوں کی جرح اور تعدیل کے بارے میں

راوی: ابراہیم بن عبداللہ بن منذر باہلی , یعلی بن عبید , سفیان ثوری , ابراہیم بن عبداللہ بن منذر باہلی نے وہ یعلی بن عبید

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُنْذِرِ الْبَاهِلِيُّ حَدَّثَنَا يَعْلَی بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ لَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ اتَّقُوا الْکَلْبِيَّ فَقِيلَ لَهُ فَإِنَّکَ تَرْوِي عَنْهُ قَالَ أَنَا أَعْرِفُ صِدْقَهُ مِنْ کَذِبِه ِقَالَ و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ قَالَ لَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ اشْتَهَيْتُ کَلَامَهُ فَتَتَبَّعْتُهُ عَنْ أَصْحَابِ الْحَسَنِ فَأَتَيْتُ بِهِ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ فَقَرَأَهُ عَلَيَّ کُلَّهُ عَنْ الْحَسَنِ فَمَا أَسْتَحِلُّ أَنْ أَرْوِيَ عَنْهُ شَيْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی قَدْ رَوَی عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَإِنْ کَانَ فِيهِ مِنْ الضَّعْفِ وَالْغَفْلَةِ مَا وَصَفَهُ أَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُهُ فَلَا يُغْتَرُّ بِرِوَايَةِ الثِّقَاتِ عَنْ النَّاسِ لِأَنَّهُ يُرْوَی عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ يُحَدِّثُنِي فَمَا أَتَّهِمُهُ وَلَکِنْ أَتَّهِمُ مَنْ فَوْقَهُ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّکُوعِ وَرَوَی أَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّکُوعِ هَکَذَا رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ وَرَوَی بَعْضُهُمْ عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ هَذَا وَزَادَ فِيهِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَأَخْبَرَتْنِي أُمِّي أَنَّهَا بَاتَتْ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّکُوعِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ وَإِنْ کَانَ قَدْ وُصِفَ بِالْعِبَادَةِ وَالِاجْتِهَادِ فَهَذِهِ حَالُهُ فِي الْحَدِيثِ وَالْقَوْمُ کَانُوا أَصْحَابَ حِفْظٍ فَرُبَّ رَجُلٍ وَإِنْ کَانَ صَالِحًا لَا يُقِيمُ الشَّهَادَةَ وَلَا يَحْفَظُهَا فَکُلُّ مَنْ کَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ بِالْکَذِبِ أَوْ کَانَ مُغَفَّلًا يُخْطِئُ الْکَثِيرَ فَالَّذِي اخْتَارَهُ أَکْثَرُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ الْأَئِمَّةِ أَنْ لَا يُشْتَغَلَ بِالرِّوَايَةِ عَنْهُ أَلَا تَرَی أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَکِ حَدَّثَ عَنْ قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَمْرُهُمْ تَرَکَ الرِّوَايَةَ عَنْهُم ْأَخْبَرَنِي مُوسَی بْنُ حِزَامٍ قَال سَمِعْتُ صَالِحَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ کُنَّا عِنْدَ أَبِي مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيِّ فَجَعَلَ يَرْوِي عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي شَدَّادٍ الْأَحَادِيثَ الطِّوَالَ الَّتِي کَانَ يَرْوِي فِي وَصِيَّةِ لُقْمَانَ وَقَتْلِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَمَا أَشْبَهَ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ فَقَالَ لَهُ ابْنُ أَخٍ لِأَبِي مُقَاتِلٍ يَا عَمِّ لَا تَقُلْ حَدَّثَنَا عَوْنٌ فَإِنَّکَ لَمْ تَسْمَعْ هَذِهِ الْأَشْيَائَ قَالَ يَا بُنَيَّ هُوَ کَلَامٌ حَسَنٌ وَقَدْ تَکَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي قَوْمٍ مِنْ أَجِلَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَضَعَّفُوهُمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ وَوَثَّقَهُمْ آخَرُونَ مِنْ الْأَئِمَّةِ بِجَلَالَتِهِمْ وَصِدْقِهِمْ وَإِنْ کَانُوا قَدْ وَهِمُوا فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا قَدْ تَکَلَّمَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ فِي مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ثُمَّ رَوَی عَنْهُ

ابراہیم بن عبداللہ بن منذر باہلی، یعلی بن عبید، سفیان ثوری، ہم سے روایت کی ابراہیم بن عبداللہ بن منذر باہلی نے وہ یعلی بن عبید سے سفیان کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کلبی سے بچو۔ عرض کیا گیا آپ بھی تو ان سے روایت کرتے ہیں سفیان نے فرمایا میں ان کے جھوٹ اور سچ کو پہچانتا ہوں۔ محمد بن اسماعیل، یحیی بن معین سے وہ عفان سے اور وہ ابوعوانہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب حسن بصری کا انتقال ہوا تو میں نے ان کا کلام تلاش کرنا شروع کیا چنانچہ میں ان کے اصحاب (ساتھیوں) سے ملا پھر ابان بن عیاش کے پاس آیا تو اس سے جو چیز پوچھی جاتی وہ حسن ہی سے روایت کر دیتا حالانکہ وہ محض جھوٹا تھا۔ لہذا اس کے بعد میں اس سے روایت کرنا جائز نہیں سمجھتا۔ ابان بن عیاش سے کئی آئمہ نے روایت کی ہے اگرچہ اس میں ضعف اور غفلت ہے جیسا کہ ابوعوانہ نے ان کے متعلق بیان کیا ہے۔ لہذا یہ مت سمجھو کہ ثقہ لوگ (روای) اس سے روایت کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ بعض آئمہ تنقید یا بیان کرنے کیلئے بھی بعض ضعفاء سے روایت کرتے ہیں۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں بعض ایسے لوگوں سے احادیث سنتا ہوں جن کو میں مہتم نہیں سمجھتا لیکن ان سے اوپر راوی مہتم ہوتا ہے۔ کئی راوی ابراہیم نخعی سے وہ علقمہ سے وہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم وتر میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھتے تھے۔ سفیان ثوری اور بعض راوی بھی ابان بن عیاش سے اسی اسناد سے اسی طرح نقل کرتے ہوئے اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ مجھے میری والدہ نے بتلایا کہ انہوں نے نبی اکرم کے ہاں رات گزاری تو آپ کو وتروں میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے دیکھا۔ اگرچہ عبادت اور ریاضت میں ابان بن عیاش کی تعریف کی گئی ہے لیکن احادیث میں ان کا یہ حال ہے۔ پھر بعض لوگ حافظ بھی ہوتے ہیں اور صالح بھی لیکن شہادت دینے اور یا اسے یاد رکھنے کے اہل نہیں ہوتے۔ غرضیکہ جھوٹ میں مہتم اور کثیر الخطاء یا غافل شخص کی قابل نہیں ہیں۔ اکثر آئمہ حدیث کا یہی مسلک ہے کہ اس سے روایت نہ لی جائے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ عبداللہ بن مبارک ایک جماعت سے نقل کرتے ہیں جب ان پر ان حضرات کا حال ظاہر ہوا تو ان سے روایت لینا ترک کر دیا۔ بعض محدیثین نے بڑے بڑے اہل علم کے باری میں کلام کیا اور حفظ کے اعتبار سے ان کو ضعیف قرار دیا۔ حالانکہ بعض آئمہ حدیث نے انہیں ان کی جلالت علمی اور صداقت کے باعث ثقہ قرار دیا اگرچہ ان سے بعض روایات میں خطا ہوئی۔ چنانچہ یحیی بن قطان نے محمد بن عمرو کے بارے میں کلام کیا پھر ان سے روایت لی۔

یہ حدیث شیئر کریں