جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ مثالوں کا بیان ۔ حدیث 784

اللہ تعالیٰ کی بندوں کے لئے مثال

راوی: علی بن حجر سعدی , بقیة بن ولید , بحیربن سعد , خالد بن معدان , جبیر بن نفیر , نواس بن سمعان کلابی

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْکِلَابِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا عَلَی کَنَفَيْ الصِّرَاطِ زُورَانِ لَهُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ عَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَهُ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَائُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ وَالْأَبْوَابُ الَّتِي عَلَی کَنَفَيْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا يَقَعُ أَحَدٌ فِي حُدُودِ اللَّهِ حَتَّی يُکْشَفَ السِّتْرُ وَالَّذِي يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ رَبِّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ سَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ زَکَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ يَقُولُ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ الْفَزَارِيُّ خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَکُمْ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَکُمْ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا غَيْرِ الثِّقَاتِ

علی بن حجر سعدی، بقیة بن ولید، بحیربن سعد، خالد بن معدان، جبیر بن نفیر، حضرت نو اس بن سمعان کلابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی اس طرح مثال دی ہے کہ وہ ایسی راہ ہے جس کے دونوں جانب دیواریں ہیں جن میں جابجا دروازے لگے ہوئے ہیں جن پر پردے لٹک رہے ہیں۔ پھر ایک بلانے والا اس راستے کے سرے پر کھڑا ہو کر اور ایک اس کے اوپر کھڑا ہو کر بلا رہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی "وَاللّٰهُ يَدْعُوْ ا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَ قِيْمٍ " 10۔یونس : 25)۔ (یعنی اللہ جنت کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر چلا دیتا ہے) اور وہ دروازے جو راستے کے دونوں جانب ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی حددود (حرام کی ہوئی چیزیں) ہیں۔ ان میں اس وقت تک کوئی گرفتار نہیں ہو سکتا جب تک پردہ نہ اٹھائے یعنی صغیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کرے اور اس راستے کے اوپر پکارنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نصیحت کرنے والا ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ میں نے عبداللہ بن عبدالرحمن کو زکریا بن عدی کے حوالے سے ابواسحاق فزاری کا یہ قول نقل کرتے ہوئے سنا کہ بقیہ بن ولید کی وہی روایتیں لو جو وہ ثقہ لوگوں سے روایت کرتے ہیں اور اسماعیل بن عیاش کی کسی روایت کا اعتبار نہ کرو خواہ وہ ثقہ سے نقل کرے یا غیرثقہ سے۔

Sayyidina Nawwas ibn Sam’an Kilabi (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said that Allah drew the parable of the straight path as having walls on either side with several open doors over which curtains hang down. At the head of the path is one who invites and another above it invites, the Prophet (SAW) recited: ‘And Allah invites (you) to the abode of peace, and guides whomsoever He will to the straight way.’ (Al-Quran 10:25) The doors on either side of the path are hudud (limits) of Allah. None will fall into the limits of Allah till he raises the curtain, meaning commit minor sins. The crier at the top of the path is e admonisher from his Lord.

[Ahmed 17651]

یہ حدیث شیئر کریں