شمائل ترمذی ۔ جلد اول ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان ۔ حدیث 7

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ کا بیان

راوی:

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ إِمْلائً عَلَيْنَا مِنْ کِتَابِهِ قَالَ أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ يُکَنَی أَبَا عَبْدِ اللهِ عَنِ ابْنٍ لأَبِي هَالَةَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ وَکَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِهِ فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم فَخْمًا مُفَخَّمًا يَتَلأْلأُ وَجْهُهُ تَلأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ أَطْوَلُ مِنَ الْمَرْبُوعِ وَأَقْصَرُ مِنَ الْمُشَذَّبِ عَظِيمُ الْهَامَةِ رَجِلُ الشَّعْرِ إِنِ انْفَرَقَتْ عَقِيقَتُهُ فَرَّقَهَا وَإِلا فَلا يُجَاوِزُ شَعَرُهُ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ إِذَا هُوَ وَفَّرَهُ أَزْهَرُ اللَّوْنِ وَاسِعُ الْجَبِينِ أَزَجُّ الْحَوَاجِبِ سَوَابِغَ فِي غَيْرِ قَرَنٍ بَيْنَهُمَا عِرْقٌ يُدِرُّهُ الْغَضَبُ أَقْنَی الْعِرْنَيْنِ لَهُ نُورٌ يَعْلُوهُ يَحْسَبُهُ مَنْ لَمْ يَتَأَمَّلْهُ أَشَمَّ کَثُّ اللِّحْيَةِ سَهْلُ الْخدَّيْنِ ضَلِيعُ الْفَمِ مُفْلَجُ الأَسْنَانِ دَقِيقُ الْمَسْرُبَةِ کَأَنَّ عُنُقَهُ جِيدُ دُمْيَةٍ فِي صَفَائِ الْفِضَّةِ مُعْتَدِلُ الْخَلْقِ بَادِنٌ مُتَمَاسِکٌ سَوَائُ الْبَطْنِ وَالصَّدْرِ عَرِيضُ الصَّدْرِ بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ ضَخْمُ الْکَرَادِيسِ أَنْوَرُ الْمُتَجَرَّدِ مَوْصُولُ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَالسُّرَّةِ بِشَعَرٍ يَجْرِي کَالْخَطِّ عَارِي الثَّدْيَيْنِ وَالْبَطْنِ مِمَّا سِوَی ذَلِکَ أَشْعَرُ الذِّرَاعَيْنِ وَالْمَنْکِبَيْنِ وَأَعَالِي الصَّدْرِ طَوِيلُ الزَّنْدَيْنِ رَحْبُ الرَّاحَةِ شَثْنُ الْکَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ سَائِلُ الأَطْرَافِ أَوْ قَالَ شَائِلُ الأَطْرَافِ خَمْصَانُ الأَخْمَصَيْنِ مَسِيحُ الْقَدَمَيْنِ يَنْبُو عَنْهُمَا الْمَائُ إِذَا زَالَ زَالَ قَلِعًا يَخْطُو تَکَفِّيًا وَيَمْشِي هَوْنًا ذَرِيعُ الْمِشْيَةِ إِذَا مَشَی کَأَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا خَافِضُ الطَّرْفِ نَظَرُهُ إِلَی الأَرْضِ أَطْوَلُ مِنْ نَظَرِهِ إِلَی السَّمَائِ جُلُّ نَظَرِهِ الْمُلاحَظَةُ يَسُوقُ أَصْحَابَهُ وَيَبْدَأُ مَنْ لَقِيَ بِالسَّلامِ

حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک دریافت کیا اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بہت ہی کثرت سے اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے۔ مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ ان اوصاف جمیلہ میں سے کچھ میرے سامنے بھی ذکر کریں تاکہ میں ان کے بیان کو اپنے لئے حجت اور سند بناؤں ۔ (اور ان اوصاف جمیلہ کو ذہن نشین کرنے اور ممکن ہو سکے تو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کروں ، حضرت حسن رضی اللہ تعالہ عنہ کی عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت سات سال کی تھی۔ اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جمیلہ میں اپنی کمسنی کی وجہ سے تامل اور کمال تحفظ کا موقع نہیں ملا تھا) ماموں جان نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ شریف کے متعلق یہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے شاندار تھے۔ اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبہ والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ماہ بدر کی طرح چمکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک بالکل متوسط قد والے آدمی سے کسی قدر طویل تھا۔ لیکن لانبے قد والے سے پست تھا، سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے۔ اگر سر کے بالوں میں اتفاقا خود مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے (یہ مشہور ترجمہ ہے اس بناء پر یہ اشکال پیش آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قصداً مانگ نکالنا روایات سے ثابت ہے۔ اس اشکال کے جواب میں علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس کو ابتدائے زمانہ پر حمل کیا جائے کہ اول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اہتمام نہیں تھا، لیکن بندہ ناچیز کے نزدیک یہ جواب اس لئے مشکل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ مشرکین کی مخالفت اور اہل کتاب کی موافقت کی وجہ سے مانگ نہ نکالنے کی تھی، اس کے بعد پھر مانگ نکالنی شروع فرمادی، اس لئے اچھا ترجمہ جس کو بعض علماء نے ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ اگر بسہولت مانگ نکل آتی تو نکال لیتے اور اگر کسی وجہ سے بسہولت نہ نکلتی اور کنگھی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو اس وقت نہ نکالتے، کسی دوسرے وقت جب کنگھی وغیرہ موجود ہوتی نکال لیتے)

Hasan bin Ali (Radiallahu anhu) reported: "I inquired from my maternal uncle (Sayyiditina Fatimah Radiallahu anha's step brother) Hind bin Abi Haalah (Radiallahu anhu) about the noble features of the Rasulullah (Sallallahu alaihe wasallam). He had often described the noble features of Rasulullah (Sallallahu alaihe wasallam) in detail. I felt that I should hear from him personally, some of the noble features of Raulullah (Sallallahu alalihe wasallam), so that I could make his discription a proof and testimony for myself and also memorise them, and, if possible, try to emulate and adopt them. (The age of Sayyidna Hasan (Radiallahu anhu) at the time of Rasulullah (Sallallahu alaihe wasallam)'s death was seven years. In view of his age he did not have the opportunity to realise fully the features of Rasulullah (Sallallahu alaihe wasallam). The uncle descirbed the noble features by saying: "He had great qualities and attributes in him, others also held him in high estemm. His mubarak face shone like the full moon. He was slightly taller than a man of middle height, but shorter than a tall person. His mubarak head was moderately large. His mubarak hair was slightly twisted. If his hair became parted naturally in the middle he left it so, otherwise he did not habitually make an effort to part his hair in the middle. (This is a more respected transaltion).

یہ حدیث شیئر کریں