موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب شفعے کے بیان میں ۔ حدیث 1304

جن چیزوں میں شفعہ نہیں ہے ان کا بیان

راوی:

عَنْ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ إِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ فِي الْأَرْضِ فَلَا شُفْعَةَ فِيهَا وَلَا شُفْعَةَ فِي بِئْرٍ وَلَا فِي فَحْلِ النَّخْلِ
قَالَ مَالِک وَعَلَی هَذَا الْأَمْرُ عِنْدَنَا
قَالَ مَالِك وَلَا شُفْعَةَ فِي طَرِيقٍ صَلُحَ الْقَسْمُ فِيهَا أَوْ لَمْ يَصْلُحْ قَالَ مَالِك وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَا شُفْعَةَ فِي عَرْصَةِ دَارٍ صَلُحَ الْقَسْمُ فِيهَا أَوْ لَمْ يَصْلُحْ قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ اشْتَرَى شِقْصًا مِنْ أَرْضٍ مُشْتَرَكَةٍ عَلَى أَنَّهُ فِيهَا بِالْخِيَارِ فَأَرَادَ شُرَكَاءُ الْبَائِعِ أَنْ يَأْخُذُوا مَا بَاعَ شَرِيكُهُمْ بِالشُّفْعَةِ قَبْلَ أَنْ يَخْتَارَ الْمُشْتَرِي إِنَّ ذَلِكَ لَا يَكُونُ لَهُمْ حَتَّى يَأْخُذَ الْمُشْتَرِي وَيَثْبُتَ لَهُ الْبَيْعُ فَإِذَا وَجَبَ لَهُ الْبَيْعُ فَلَهُمْ الشُّفْعَةُ و قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي أَرْضًا فَتَمْكُثُ فِي يَدَيْهِ حِينًا ثُمَّ يَأْتِي رَجُلٌ فَيُدْرِكُ فِيهَا حَقًّا بِمِيرَاثٍ إِنَّ لَهُ الشُّفْعَةَ إِنْ ثَبَتَ حَقُّهُ وَإِنَّ مَا أَغَلَّتْ الْأَرْضُ مِنْ غَلَّةٍ فَهِيَ لِلْمُشْتَرِي الْأَوَّلِ إِلَى يَوْمِ يَثْبُتُ حَقُّ الْآخَرِ لِأَنَّهُ قَدْ كَانَ ضَمِنَهَا لَوْ هَلَكَ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ غِرَاسٍ أَوْ ذَهَبَ بِهِ سَيْلٌ قَالَ فَإِنْ طَالَ الزَّمَانُ أَوْ هَلَكَ الشُّهُودُ أَوْ مَاتَ الْبَائِعُ أَوْ الْمُشْتَرِي أَوْ هُمَا حَيَّانِ فَنُسِيَ أَصْلُ الْبَيْعِ وَالِاشْتِرَاءِ لِطُولِ الزَّمَانِ فَإِنَّ الشُّفْعَةَ تَنْقَطِعُ وَيَأْخُذُ حَقَّهُ الَّذِي ثَبَتَ لَهُ وَإِنْ كَانَ أَمْرُهُ عَلَى غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ فِي حَدَاثَةِ الْعَهْدِ وَقُرْبِهِ وَأَنَّهُ يَرَى أَنَّ الْبَائِعَ غَيَّبَ الثَّمَنَ وَأَخْفَاهُ لِيَقْطَعَ بِذَلِكَ حَقَّ صَاحِبِ الشُّفْعَةِ قُوِّمَتْ الْأَرْضُ عَلَى قَدْرِ مَا يُرَى أَنَّهُ ثَمَنُهَا فَيَصِيرُ ثَمَنُهَا إِلَى ذَلِكَ ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى مَا زَادَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بِنَاءٍ أَوْ غِرَاسٍ أَوْ عِمَارَةٍ فَيَكُونُ عَلَى مَا يَكُونُ عَلَيْهِ مَنْ ابْتَاعَ الْأَرْضَ بِثَمَنٍ مَعْلُومٍ ثُمَّ بَنَى فِيهَا وَغَرَسَ ثُمَّ أَخَذَهَا صَاحِبُ الشُّفْعَةِ بَعْدَ ذَلِكَ قَالَ مَالِك وَالشُّفْعَةُ ثَابِتَةٌ فِي مَالِ الْمَيِّتِ كَمَا هِيَ فِي مَالِ الْحَيِّ فَإِنْ خَشِيَ أَهْلُ الْمَيِّتِ أَنْ يَنْكَسِرَ مَالُ الْمَيِّتِ قَسَمُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ فَلَيْسَ عَلَيْهِمْ فِيهِ شُفْعَةٌ قَالَ مَالِك وَلَا شُفْعَةَ عِنْدَنَا فِي عَبْدٍ وَلَا وَلِيدَةٍ وَلَا بَعِيرٍ وَلَا بَقَرَةٍ وَلَا شَاةٍ وَلَا فِي شَيْءٍ مِنْ الْحَيَوَانِ وَلَا فِي ثَوْبٍ وَلَا فِي بِئْرٍ لَيْسَ لَهَا بَيَاضٌ إِنَّمَا الشُّفْعَةُ فِيمَا يَصْلُحُ أَنَّهُ يَنْقَسِمُ وَتَقَعُ فِيهِ الْحُدُودُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَّا مَا لَا يَصْلُحُ فِيهِ الْقَسْمُ فَلَا شُفْعَةَ فِيهِ قَالَ مَالِك وَمَنْ اشْتَرَى أَرْضًا فِيهَا شُفْعَةٌ لِنَاسٍ حُضُورٍ فَلْيَرْفَعْهُمْ إِلَى السُّلْطَانِ فَإِمَّا أَنْ يَسْتَحِقُّوا وَإِمَّا أَنْ يُسَلِّمَ لَهُ السُّلْطَانُ فَإِنْ تَرَكَهُمْ فَلَمْ يَرْفَعْ أَمْرَهُمْ إِلَى السُّلْطَانِ وَقَدْ عَلِمُوا بِاشْتِرَائِهِ فَتَرَكُوا ذَلِكَ حَتَّى طَالَ زَمَانُهُ ثُمَّ جَاءُوا يَطْلُبُونَ شُفْعَتَهُمْ فَلَا أَرَى ذَلِكَ لَهُمْ

حضرت عثمان نے کہا جب زمین میں حدیں پڑجائیں تو اس میں شفعہ نہ ہوگا اور نہیں شفعہ ہے کنوئیں میں اور نہ کھجور کے نر درخت میں۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔
کہا مالک نے راستے میں شفعہ نہیں ہے خواہ وہ تقسیم کے لائق ہو یا نہ ہو۔
کہا مالک نے اگر مشتری (خریدنے والا) نے خیار کی شرط سے زمین کے ایک حصے کو خریدا تو شفیع کو شفعے کا حق نہ ہوگا جب تک کہ مشتری (خریدنے والا) کا خیار پورا نہ ہو۔ اور وہ اس کو قطعی طور پر نہ لے۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص نے زمین خریدی اور مدت تک اس پر قابض رہابعد اس کے ایک شخص نے اس زمین میں اپنا حق ثابت کیا تو اس کو شفعہ ملے گا اور جو کچھ زمین میں منفعت ہوئی ہے وہ مشتری (خریدنے والا) کی ہوگی جس تاریخ تک اس کا حق ثابت ہوا ہے کیونکہ وہ مشتری (خریدنے والا) اس زمین کا ضامن تھا اگر وہ رتلف ہوجاتی یا اس کے درخت تلف ہوجاتے ۔ اگر بہت مدت گزر گئی یا گواہ مر گئے یا بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) مر گئے یا وہ رندہ ہیں مگر بیع کو بھول گئے بہت مدت گزرنے کی وجہ سے اس صورت میں اس شخص کو اس کا حق تو ملے گا مگر شفعے کا دعویٰ نہ پہنچے گا۔ اگر زمانہ بہت نہیں گزرا ہے اور اس شخص کو معلوم ہوا کہ بائع (بچنے والا) نے قصداًشفعہ باطل کرنے کے واسطے بیع کو چھپایا ہے تو اصل زمین کی قیمت اور جو اس میں زیادہ ہوگیا ہے اس کی قیمت وہ شخص ادا کرکے شفعہ لے لے گا۔
کہا مالک نے جیسے زندہ کے مال میں شفعہ ہے ویسے میت کے مال میں بھی شفعہ ہے۔ البتہ اگر میت کے وارث اس کے مال کو تقسیم کرلیں پھر بیچیں تو اس میں شفعہ نہ ہوگا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک غلام اور لونڈی اور اونٹ اور گائے اور بکری اور جانور اور کپڑے میں شفعہ نہیں ہے نہ اس کنوئیں میں جس کے متعلق زمین نہیں ہے کیونکہ شفعہ اس زمین میں ہوتا ہے جو تقسیم کے قابل ہے اور اس میں حدود ہوتے ہیں زمین کی قسم سے جو چیز ایسی نہیں ہے اس میں شفعہ بھی نہیں ہے۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایسی زمین خریدی جس میں لوگوں کو حق شفعہ پہنچتا ہے تو چاہیے کہ شفیعوں کو حاکم کے پاس لے چائے یا شفعہ لیں یا چھوڑ دیں اگر مشتری (خریدنے والا) شفیعوں کو حاکم کے پاس نہیں لے گیا لیکن ان کو خریدنے کی خبر ہوگئی تھی اور انہوں نے مدت شفعہ کا دعویٰ نہ کیا بعد اس کے دعویٰ کیا تو مسموع نہ ہوگا۔ پوری ہوئی کتاب شفعے کی۔

Yahya said that Malik related from Muhammad ibn Umara from Abu Bakr ibn Hazm that Uthman ibn Affan said, "When boundaries are fixed in land, there is no pre-emption in it. There is no pre-emption in a well or in male palm trees. "

یہ حدیث شیئر کریں