مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ وتر کا بیان ۔ حدیث 1246

وتر میں پڑھی جانے والی دعا

راوی:

وَعَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ قَالَ عَلَّمَنِی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَلِمَاتٍ اَقُوْلُھُنَّ فِی قُنُوْتِ الْوِتْرِ اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِی فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِی فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِی فِیْمَآ اَعْطَیْتَ وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَّیْتَ فَاِنَّکَ تَقْضِی وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ اِنَّہ، لَّا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجۃ والدارمی)

" اور حضرت حسن بن علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے تاکہ میں انہیں وتر کی دعا قنوت میں پڑھا کروں اور وہ کلمات دیا یہ ہیں اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِی فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِی فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِی فِیْمَآ اَعْطَیْتَ وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَّیْتَ فَاِنَّکَ تَقْضِی وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ اِنَّہ، لَّا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ
اے اللہ ! مجھے ہدایت کر ان لوگوں کے ساتھ (یعنی انبیاء و اولیا کے ساتھ ) جن کو تو نے ہدایت کی مجھے دنیا اور آخرت کی مصیبتوں اور آفتوں سے بچا اور لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے بچایا اور مجھ سے محبت کر ان لوگوں کے ساتھ جن سے تو نے محبت کی اور جو کچھ تو نے مجھے عطا کیا ہے (یعنی عمر، مال، علم اور نیک اعمال) ان میں برکت عطا فرما اور مجھے ان برائیوں سے بچا جو مقدر ہوں ، بے شک تو جو چاہتا ہے وہ حکم کرتا ہے اور تجھے کوئی حکم نہیں کرتا (یعنی تو حاکم مطلق ہے محکوم نہیں ہے اور جسے تو دوست رکھتا ہے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اے ہمارے رب تو بابرکت ہے (یعنی دارین پر تیرا خیر ہی خیر محیط ہے ) اور تیری ذات بلند و برتر ہے۔" (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
حضرت حسن کے الفاظ اقولھن فی قنوت الوتر (تاکہ میں وتر کی دعا قنوت میں پڑھا کروں) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قنوت الوتر کو مطلقاً زکر کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دعا تمام سال یعنی تمام دنوں میں پڑھنی مراد ہے جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے مگر حضرت شوافع دعائے قنوت کو رمضان کے آخری نصف ایام میں وتر کے ساتھ مقید کرتے ہیں گویا کہ شافعی حضرات کے یہاں تو صرف رمضان کے نصف آخری ایام میں وتر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے جب کہ حنفی حضرات تمام دنوں میں نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اَھْدِنِی اے اللہ ! مجھے ہدایت کر یعنی ہدایت کے راستے پر مجھے ثابت قدم رکھ۔ یا ہدایت کے اسباب و ذرائع زیادہ سے زیادہ مجھے عطا فرماتا کہ ان کو اختیار کر کے اعلیٰ مرتبے اور علیٰ درجے پر پہنچ سکوں۔
انہ لا یذل من والیت (جسے تو دوست رکھتا وہ ذلیل نہیں ہو سکتا کا مطلب یہ ہے کہ جسے تو نے اپنا دوست بنا لیا بایں طور کہ اسے نیک راستے پر چلنے اور صالح اعمال اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما کر سعادت و خوشی بختی کے مرتبے پر فائز کیا وہ آخرت میں ذلیل و شرمسار نہیں ہو سکتا۔ پھر یہاں مطلقاً ذلت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرما نبردار بندہ جسے وہ محبوب رکھتا ہے، نہ آخرت میں نادم و شرمسار ہو سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں ذلت و رسوائی اس کے پاس پھٹک سکتی ہے ۔ اگرچہ بظاہر دنیا کی نظروں میں وہ کسی بلاو مصیبت میں گرفتار ہو یا کوئی آدمی اسے ذلیل و خوار کرے مگر حقیقت میں وہ اللہ کے نزدیک با عظمت و با عزت ہی ہوتا ہے جیسا کہ دنیا کے لوگوں نے اللہ کے پیغمبر اور نبی حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیرا اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کو ذبح کیا ۔ لہٰذا ان جلیل القدر پیغمبروں کو ظلم و ستم کے اس اسٹیج سے اس لئے گزرنا نہیں پڑا کہ معاذ اللہ وہ اللہ کے محبوب اور دوست نہیں تھے بلکہ درحقیقت ان کو امتحان و آزمائش میں ڈالا گیا۔ غرضیکہ دنیا والوں کے ذلیل کرنے سے اللہ کے نیک و محبوب بندے ذلیل نہیں ہوتے اللہ کے نزدیک وہ عزت والے ہی ہوتے ہیں۔
بعض روایتوں میں اِنَّہ لَّا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ کے بعد ولا یعزمن عادیت (اور جس سے تجھ کو عداوت ہو وہ عزت نہیں پا سکتا) کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اسی طرح بعض روایتوں میں وَتَعَالَیْتَ کے بعد نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ الیک (اے اللہ ہم اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور تیرے ہی سامنے توبہ کرتے ہیں) اور بعض روایتوں میں اس کے بعد الفاظ مزید نقل کئے گئے ہیں۔
بہر حال حضرات شوافع کی دعا قنوت یہ ہے کہ وہ حضرات اسی دعا کو وتر اور فجر نماز میں پڑھتے ہیں حنفی حضرات کے ہاں وتر کی نماز میں جو دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے وہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ الخ ہے جو ہم شروع باب میں نقل کر چکے ہیں۔
بعض علماء کی رائے ہے کہ وتر کی نماز میں اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ اور اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ الخ دونوں دعائیں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ شروع باب میں ہم نے دونوں دعائیں نقل کی ہیں۔
دعائے قنوت کے سلسلہ میں ائمہ کے ہاں مختلف فیہ چیزیں
محقق علامہ ابن ہمام علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ سلسلے میں ائمہ کے ہاں تین باتیں مختلف فیہ ہیں ایک تو یہ کہ دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں؟ دوسری بات یہ کہ دعاء قنوت و ترکی نماز میں تمام دنوں میں پڑھی جائے یا صرف رمضان کے آخری نصف حصے میں؟ تیسری چیز یہ کہ دعاء قنوت وتر کے علاوہ کسی اور نماز میں پڑھی جائے یا نہیں؟ چنانچہ حضرت امام شافعی تو فرماتے ہیں کہ دعائے قنوت رکوع کے بعد پڑھی جائے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل بہت زیادہ قوی ہے اس سلسلے میں اہل علم اور محققین حضرات مرقاۃ میں پوری تفصیل دیکھ سکتے ہیں جہاں تک دوسری اور تیسری مختلف باتوں کا تعلق ہے تو ہم انشاء اللہ ان دونوں مسئلوں کو آگے آنے والے باب" باب القنوت" میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں