مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تراویح کا بیان ۔ حدیث 1269

رمضان کی راتوں میں عبادت کرنے کی فضلیت

راوی:

عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ صقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُرَغِّبُ فِیْ قِےَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَےْرِ اَنْ ےَّاْمُرَھُمْ فِےْہِ بِعَزِےْمَۃٍ فَےَقُوْلُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِےْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ فَتُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالْاَمْرُ عَلٰی ذَلِکَ ثُمَّ کَانَ الْاَمْرُ عَلٰی ذَالِکَ فِیْ خِلَافَۃِ اَبِیْ بَکْرٍ وَّصَدْرًا مِّنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ عَلٰی ذَالِکَ۔(صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان (یعنی نماز تراویح) کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن تاکید کے ساتھ صحابہ کو کوئی حکم نہیں دیا کرتے تھے چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ " جو آدمی صحیح اعتقاد کے ساتھ حصول ثواب کے لئے (یعنی ریاء و نمازئش کے جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ محض اللہ جل شانہ کی رضاء و خوشنودی کے لئے رمضان میں قیام کرتا ہے اس کے لئے پہلے گناہ صغیرہ بخش دئیے جاتے ہیں" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور قیام رمضان کا معاملہ اسی طرح رہا (یعنی نماز تراویح کے لئے جماعت مقرر نہیں تھی بلکہ جو جانتا تھا حصول ثواب کے لئے پڑھ لیتا تھا) پھر حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں بھی یہی صورت رہی اور حضرت عمر کے زمانہ خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی یہی معمول رہا ( اور حضرت عمر نے نماز تراویح کے لئے جماعت کا حکم دیا اور اس کا التزام کیا۔" (صحیح مسلم)

تشریح
" صحیح اعقتاد اور حصول ثواب کے لئے رمضان میں قیام کرنے " کا مطلب یہ ہے کہ " رمضان کی مقدس و بابرکت راتوں میں عبادت الٰہی کے لئے شب بیداری کرنا " یا اس سے یہ بھی مراد ہے کہ " جو آدمی صحیح اعتقاد کے ساتھ نماز تراویح پڑھے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر ایمان رکھتا ہو اور اس بات کو سچ جاننا ہو کہ رمضان کی راتوں کو عبادت الٰہی میں مشغول ہونا مثلاً نماز تراویح وغیرہ کا پڑھنا اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس کی رضا و خوشنودی کا باعث ہے تو اس کے وہ گناہ صغیرہ جو اس سے سرزد ہو چکے ہیں معاف کر دئیے جاتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں