مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تراویح کا بیان ۔ حدیث 1274

حضرت عمر کا نماز تراویح کے لئے جماعت مقرر کرنا

راوی:

عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِنِ الْقَارِیِّص قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ ص لَےْلَۃً اِلَی الْمَسْجِدِ فَاِذَ النَّاسُ اَوْزَاعٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ ےُصَلِّی الرَّجُلُ لِنَفْسِہٖ وَےُصَلِّی الرَّجُلُ فَےُصَلِّی بِصَلَوٰتِہِ الرَّھْطُ فَقَالَ عُمَرُ ص اِنِّیْ لَوْ جَمَعْتُ ھٰؤُلَۤاءِ عَلٰی قَارِئٍ وَّاحِدٍ لَّکَانَ اَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَھُمْ عَلٰی اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ص قَالَ ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَہُ لَےْلَۃً اُخْرٰی وَالنَّاسُ ےُصَلُّوْنَ بِصَلٰوۃِ قَارِئِھِمْ قَالَ عُمَرص ُ نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ وَالَّتِیْ تَنَامُوْنَ عَنْھَا اَفْضَلُ مِنَ الَّتِیْ تَقُوْمُوْنَ ےُرِےْدُ اٰٰخِرُ اللَّےْلِ وَکَانَ النَّاسُ ےَقُوْمُوْنَ اَوَّلَہُ۔(صحیح البخاری)

" حضرت عبدالرحمن ابن عبدالقاری فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ رمضان کی) رات کو میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمراہ مسجد میں گیا وہاں ہم نے کیا دیکھا کہ لوگ متفرق اور بکھرے ہوئے تھے (یعنی کوئی تو عشاء کی نماز کے بعد نفل نماز تنہا پڑھ رہا تھا اور کوئی اس طرح پڑھ رہا تھا کہ چند آدمی اور بھی اس کے ساتھ تھے (گویا کچھ لوگ تو الگ الگ تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے اور کچھ لوگ جماعت کے ساتھ پڑھ رہے تھے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " اگر میں ان لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو بہتر ہوگا " چنانچہ انہوں نے اس کا ارادہ کر لیا اور سب لوگوں کو حضرت ابی بن کعب کے پیچھے جمع کر دیا (یعنی انہیں نماز تراویح کے لئے لوگوں کا امام مقرر کر دیا) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ" (پھر اس کے بعد) میں ایک رات حضرت عمر کے ہمراہ مسجد میں گیا، وہاں سب لوگ اپنے امام یعنی حضرت ابی ابن کعب کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت عمر نے فرمایا کہ " اچھی بدعت ہے" اور (تراویح کی) اس وقت کی نماز جب کہ تم سوتے رہتے ہو اس وقت کی نماز سے بہتر ہے " اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد آخری رات تھی (یعنی حضرت عمر کے اس ارشاد کا یہ مطلب تھا کہ تراویح کی نماز رات کے آخری حصہ میں پڑھنا رات کے اول وقت پڑھنے سے بہتر ہے کیونکہ ) اس وقت لوگ تراویح کی نماز اول وقت پڑھ لیا کرتے تھے۔" (صحیح البخاری )

تشریح
نعمت البدعۃ (یہ اچھی بدعت ہے) کا مطلب یہ ہے کہ یہ جماعت کا مقرر ہونا اچھی بدعت ہے ہے کہ اصل جماعت گویا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقرر جماعت کو اچھی بدعت کہا نہ کہ اچھی بدعت سے ان کی مراد اصل جماعت تھی کیونکہ جماعت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہو چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ تراویح کی نماز جماعت سے پڑھی جیسا کہ پچھلی حدیثوں میں گذر چکا ہے ویسے اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تقرر جماعت بھی " اچھی بدعت" سے آگے بڑھ کر سنت کے درجے میں آجاتا ہے کیونکہ خلفائے راشدین کے قائم کئے ہوئے طریقے بھی سنت ہیں۔
بہر حال حاصل یہ ہے کہ یہاں " بدعت" کے لغوی معنی کا اعتبار ہے نہ کہ اس معنی کا جو فقہا کی اصطلاح میں ہوتا ہے

یہ حدیث شیئر کریں