مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز قصر سے متعلقہ احادیث ۔ حدیث 1311

مسافر حالت سفر میں اگر نفل نہ پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں

راوی:

وَعَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍص قَالَ صَحِبْتُ ابنَ عُمَرَ فِیْ طَرِیْقِ مَکَّۃَ فَصَلّٰی لَنَا الظُّھْرَ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ جَآءَ رَحْلَہُ وَجَلَسَ فَرَاٰی نَاسًا قِیَامًا فَقَالَ مَا یَصْنَعُ ہٰوُلآءِ قُلْتُ یُسَبِّحُوْنَ قَالَ لَوْ کُنْتُ مُسَبِّحًا اَتْمَمْتُ صَلٰوتِیْ صَحِبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلمفَکَانَ لَا یَزِیْدُ فِی السَّفَرِ عَلٰی رَکْعَتَیْنِِِ وَاَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ کَذَالِکَ( صحیح البخاری و صحیح مسلم)

' اور حضرت حفص ابن عاصم فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) مکہ اور مدینہ کے درمیان راستے میں مجھے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا (جب وقت ہو گیا تو ) انہوں نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعت پڑھائیں اور اس کے بعد جب وہ اپنے خیمے میں واپس آئے تو دیکھا کہ لوگ کھڑے ہوئے ہیں انہوں نے پوچھا کہ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ نفل پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر مجھے نفل نماز پڑھنی ہوتی تو میں اپنی فرض نماز پوری نہ پڑھتا (یعنی اگر یہ موقع نفل نماز پڑھنے کا ہوتا تو فرض نمازیں پوری پڑھنی زیادہ اہم ہوتیں مگر جب آسانی کے پیش نظر فرض نماز کو قصر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے تو نفل نماز کو ترک کرنا ہی اولیٰ ہوگا کیونکہ فرض کو اداء کرنا نفل پڑھنے سے اولیٰ ہے) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا شرف حاصل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، نیز مجھے حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رفاقت کا شرف بھی حاصل ہے ان حضرات میں بھی یہی معمول ہوتا ہے (کہ سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔"

تشریح
حضرت ابن ملک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ حالت سفر میں نفل نہ پڑھے جائیں۔ سنت راتبہ نمازوں کا حکم دوسری فصل میں انشاء اللہ مذکور ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں