مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز قصر سے متعلقہ احادیث ۔ حدیث 1313

سواری پر نماز پڑھنے کا مسئلہ

راوی:

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ فِی السَّفَرِ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ حَیْثُ تَوَجَّھْتُ بِہٖ یُوْ مِیْ اِیْمَآئً صَلٰوۃَ اللَّیْلِ اِلَّا الْفَرَائِضَ وَیُوْتِرُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے تو رات کی نماز علاوہ فرض نماز کے اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے اور سواری کا منہ جس سمت ہوتا اسی سمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی منہ ہوتا نیز نماز وتر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری ہی پر پڑھ لیتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حَیْثُ تَوَجَّھْتُ بِہ کا مطلب یہ ہے کہ کہ جدھر سواری کا منہ ہوتا (ادھر ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی منہ کئے ہوئے نماز پڑھتے رہتے تھے لیکن تکبیر تحریمہ کے وقت اپنا روئے مبارک بہر صورت قبلے ہی کی طرف رکھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معلوم ہوگا اشارے سے نماز پڑھنے" کا مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرتے تھے نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کا جو اشارہ کرتے وہ رکوع کے اشارے سے پست ہوتا تھا۔
اس حدیث سے دو مسئلے مستنبط ہوتے ہیں اول تو یہ کہ سواری پر نفل نماز پڑھنی جائز ہے لیکن فرض نہیں اس حدیث میں اگرچہ رات کی نماز کا ذکر کیا گیا ہے لیکن دوسری روایتوں میں عام نفل نمازوں کا ذکر موجود ہے لہٰذا یہ حکم سنت موکدہ اور اس کے علاوہ دیگر سنن و نوافل نمازوں کو بھی شامل ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک روایت میں ثابت ہے کہ فجر کی سنتوں کے لئے سواری سے اتر جانا مستحب ہے بلکہ ایک دوسری روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی سنتوں کو سواری سے اتر کر پڑھنا واجب ہے ۔ اسی لئے اس نماز کو بغیر کسی عذر کے بیٹھے بیٹھے پڑھنا جائز نہیں ہے فرض نماز سواری پر پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن مندرجہ ذیل اعذار کی صورت میں فرض نماز بھی سواری پر پڑھ لینا جائز ہے۔
(١) کوئی آدمی جنگل میں ہو اور اپنے مال یا اپنی جان کی ہلاکت کا خوف غالب ہو مثلاً یہ ڈر ہو کہ اگر سواری سے اتر کر نماز پڑھنے لگوں گا تو کوئی چور یا راہزن مال و اسباب لے کر چلتا بنے گا یا کوئی درندہ نقصان پہنچائے گا یا قافلے سے بچھڑ جاؤں گا یا راستہ بھول جاؤں (٢) سواری میں کوئی ایسا سرکش جانور ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جس پر اترنے کے بعد پھر چڑھنا ممکن نہ ہو۔ (٣) نماز پڑھنے والا اتنا ضعیف اور بوڑھا ہو کہ خود نہ تو سواری سے اتر سکتا ہو اور سواری پر چڑھنے پر قادر ہو اور نہ کوئی ایسا آدمی پاس موجود ہو جو سواری سے اتار سکے اور اس پر چڑھا سکے۔ (٤) زمین پر اتنا کیچڑ ہو کہ اس پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہے۔ (٥) یا بارش کا عذر ہو۔
بہر حال ان صورتوں میں فرض نماز بھی سواری پر پڑھی جا سکتی ہے کیونکہ اعذار اور ضروتیں شرعی و قواعد و قوانین سے مشتثنی ہوتی ہیں۔
جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کا تعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے تو اس کے بارے میں امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نماز وتر کے حکم کی تاکید کے پیش نظر اور اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے سواری پر وتر کی نماز پڑھ لیتے تھے مگر جب لوگوں کے ذہن میں اس نماز کی تاکید و اہمیت بیٹھ گئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اتنی تاکید فرما دی کہ اس کے چھوڑنے کو روا نہیں رکھا تو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز بھی سواری سے اتر کر زمین پر پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے حضرت امام محمد نے اپنی کتاب " موطا " میں صحابہ و تابعین کے ایسے بہت آثار نقل کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حضرات وتر کی نماز پڑھنے کے لئے اپنی سواریوں سے اتر جاتے تھے۔
علامہ شمنی فرماتے ہیں کہ " نماز فرض کی طرح جنازہ کی نماز، منت مانی ہوئی نماز نذر اور وہ سجدہ تلاوت کہ جس کی آیت سجدہ کی تلاوت زمین پر کی گئی سواری پر جائز نہیں ہے۔
حدیث سے دوسرا مسئلہ یہ مستنبط ہوتا ہے کہ سواری پر نماز پڑھنا سفر کے ساتھ مشروط ہے چنانچہ ائمہ جمہور کا یہی مسلک ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ و حضرت امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا محقق اور صحیح مسلک یہ ہے کہ " سواری پر نماز کا جواز نمازی کے شہر سے باہر ہونے کے ساتھ مشروط ہے خواہ مسافر ہو یا نہ ہو، چنانچہ اگر کوئی مسافر بھی شہر کے اندر ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کے لئے سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک جائز ہے اگرچہ مکروہ ان کے نزدیک بھی ہے حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ مسافر شہر کے اندر بھی سواری پر نفل پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ اب اس کے بعد اس میں اختلاف ہے کہ شہر سے کتنے فاصلے پر ہونے کی صورت میں سواری پر نماز پڑھنا جائز ہے چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک کم سے کم دو فرسخ (چھ میل) شہر سے باہر ہونا ضروری ہے بعض حضرات نے تین فرسخ اور بعض حضرات نے ایک کوس متعین کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ شہر و آبادی کے مکانات سے باہر ہوتے ہی سواری پر نماز نفل پڑھنا جائز ہے جیسا کہ قصر نماز کے جواز کے سلسلے میں قاعدہ ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں