مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز قصر سے متعلقہ احادیث ۔ حدیث 1314

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز قصر نہ پڑھنا

راوی:

عَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کُلُّ ذٰلِکَ قَدْ فَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَصَرَ الصَّلَاَۃ وَاَتَمَّ ۔ (رواہ فی شرح السنۃ)

" ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفر کی حالت میں) کم رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور پوری بھی پڑھی ہیں۔" (شرح النسۃ)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت سفر میں دونوں طریقوں پر عمل فرماتے تھے یعنی چار رکعت والی نماز کی دو رکعتیں بھی پڑھتے تھے اور پوری چار رکعتیں بھی پڑھتے تھے ۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا عمل اسی حدیث پر ہے وہ فرماتے ہیں کہ سفر میں قصر کرنا بھی جائز ہے اور پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نماز پڑھے گا تو وہ گنہگار ہوگا۔
یہ حدیث اگرچہ امام شافعی کی دلیل ہے لیکن اہل نظر کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے سلسلہ روایت میں ابراہیم بن یحییٰ کا نام بھی آتا ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف قرار دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو پہنچی ہوئی نہیں ہے اور سفر کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے اور دارقطنی اور بیہقی وغیرہ نے جو روایت نقل کی ہے جس سے حالت سفر میں اتمام اور قصر دونوں کا جواز ثابت ہوتا ہے بلکہ دار قطنی نے اس کی صراحت بھی کی ہے کہ اس کی سند صحیح ہے تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا تعلق حکم اول سے ہوگا یعنی ابتداء میں تو اتمام اور قصر دونوں جائز تھے۔ مگر بعد میں قصر ہی کو ضروری قرار دیدیا گیا۔
یہاں حضرت عائشہ کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ حدیث کے پہلے جزء کا تعلق تو ان نمازوں سے ہے جن میں قصر کیا جاتا ہے مثلاً چار رکعتوں والی نماز اور دوسرے جز کا تعلق ان نمازں سے ہے جن میں قصر ہوتا ہی نہیں جیسے تین یا دو رکعتوں والی نماز یعنی چار رکعتوں والی نماز میں تو قصر کرتے تھے اور تین و دو رکعتوں والی نماز کو پورا کر کے پڑھتے تھے اسی مفہوم کو مراد لینے سے ظاہری معنی و مفہوم سے زیادہ دور جانا نہیں پڑتا کیونکہ قصر و اتمام دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مفہوم ہو جاتے ہیں اور یہ تو جیہہ بہت مناسب اور قریب از حقیقت ہے۔
بلا قصد وارادہ پندرہ دن سے زیادہ قیام کی صورت میں قصر جائز ہے

یہ حدیث شیئر کریں