مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ قربانى کا بیان ۔ حدیث 1412

مسلمانوں کے لئے خوشی کے دو دن

راوی:

عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ وَلَھُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْھِمَا فَقَالَ مَا ھٰذَانِ الْیَوْمَانِ قَالُوْا کُنَّا نَلْعَبُ فِیْھِمَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ اَبْدَ لَکُمُ اﷲُ بِھِمَا خَیْرًا مِّنْھُمَا یَوْمَ الْاٰضْحٰی وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔ (رواہ ابوداؤد)

" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ لہو و لعب کرتے (اور خوشیاں مناتے) تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ " یہ دو دن کیسے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ " ان دونوں دنوں میں ہم زمانہ جاہلیت میں کھیلا کودا کرتے تھے " ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان دونوں دنوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دئیے ہیں اور وہ عید الاضحی اور عید الفطر کے دن ہیں۔" (ابوداؤد)

تشریح
زمانہ جاہلیت میں اہل مدینہ کے لئے دو دن مقرر تھے جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے تھے اور خوشیاں منایا کرتے تھے ان میں سے ایک دن " نوروز" تھا اور دوسرا دن " مہر جان" ۔ نوروز کے دن آفتاب برج حمل میں جاتا ہے اور مہر جان کے دن برج میزان میں داخل ہوتا ہے۔ چونکہ ان دونوں دنوں میں آب و ہوا معتدل ہوتی ہے۔ اور رات دن برابر ہوتے ہیں اس لئے ان دنوں کو حکام نے خوشی منانے کی لئے مقرر کر لیا تھا چنانچہ وہی رسم لوگوں میں چلی آتی تھی۔ یہاں تک کہ جب اہل مدینہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو شروع میں پرانی عادت کے مطابق ان دونوں میں پہلے زمانے کی طرح خوشی منایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان دنوں کی حقیقت دریافت فرمائی تو وہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہ کر سکے صرف اتنا بتا سکے کہ پرانے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور ان دنوں سے ہم اسی طرح خوشی مناتے چلے آتے ہیں، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں سے تمہیں اب کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دنوں سے بہتر تمہیں عیدین کے دو دن عنایت فرما دئیے ہیں تم ان بابرکت دنوں میں خوشی منا سکتے ہو۔ گویا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو یہ اشارہ فرمایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ حقیقی عید اور خوشی عبادت کے دن منائے۔ لہٰذا اس حدیث میں عیدین کے دن لہو و لعب میں مشغول ہونے کی ممانعت ہے ۔ دوسری طرف یہ اشارہ خفی ہے کہ عیدین میں بہت معمولی طریقے پر کھیل کود اور اس انداز اور اس طریقے سے خوشی منانا کہ جس میں حدود شریعت سے تجاوز اور فحاشی نہ ہو جائز ہے۔
یہ حدیث نہایت طبع انداز میں یہ بتا رہی ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار کی تعظیم کرنا اور ان میں خوشی منانا، نیز ان کی رسموں کو اپنانا ممنوع ہے نیز یہ حدیث غیر مسلموں کی عید و تہوار میں شرکت و حاضری کی ممانعت کو بھی ظاہر کر رہی ہے۔ بعض علماء نے تو اسے سخت جانا ہے کہ اس عمل پر کفر کا حکم لگایا ہے چنانچہ ابوحفص کبیر حنفی فرماتے ہیں کہ جو آدمی نوروز کی عظمت و توقیر کے پیش نظر اس دن مشرکوں کو تحفہ میں انڈا بھیجے ( جیسا کہ اس روز مشرکین کا طریقہ ہے) تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس کے تمام اعمال نابود ہو جاتے ہیں۔
حضرت قاضی ابوالمحاسن ابن منصور حنفی کا قول ہے کہ " اگر کوئی اس دن وہ چیزیں خریدے جو دوسرے دنوں میں نہیں خریدتا ہے (جیسا کہ ہمارے یہاں دیوالی کے روز کھلیں اور مٹھائی بنے ہوئے کھلونے وغیرہ خریدے جاتے ہیں یا اس دن کسی کو تحفہ بھیجتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم ہو جیسا کہ مشرک اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو وہ آدمی کافر ہو جاتا ہے، اور اگر کوئی آدمی محض اپنے استعمال اور فائدہ اٹھانے یا حسب عادت کسی کو ہدیہ بھیجنے کی نیت سے خریدتا ہے۔ تو کافر نہیں ہوتا لیکن یہ بھی مکروہ ہے لیکن اس طرح کافروں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اس لئے اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔
اس طرح اگر کوئی آدمی عاشورہ کے دن خوشی مناتا ہے تو خوارج کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور اگر اس دن غم والم ظاہر کرنے والی چیزیں اختیار کرتا ہے تو روافض کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے لہٰذا ان دونوں باتوں سے بچنا چاہیے۔ یہ بات بھی جانے لیجئے کہ نوروز کی عظمت و توقیر کے سلسلہ میں روافض مجوسیوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ اسی دن حضرت عثمان شہید کئے گئے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلاف منعقد ہوئی تھی۔
فتاوی ذخیرہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ہولی اور دیوالی دیکھنے کے لئے بطور خاص نکلتا ہے وہ حدود کفر سے قریب ہو جاتا ہے کیونکہ اسی میں اعلان کفر ہوتا ہے لہٰذا ایسا آدمی گویا اپنے عمل سے فکر کی مدد کرتا ہے اسی پر " نوروز" دیکھنے کے لئے نکلنے کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بعض مسلمان ایسا کرتے ہیں ۔ یہ بھی موجب کفر ہے۔
" تجنیس" میں مذکور ہے کہ ہمارے مشائخ اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جس آدمی نے اہل کفار کے معتقدات و معاملات میں سے کسی چیز کے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھا تو وہ حدود کفر میں داخل ہو جائے گا۔ اسی پر اس مسئلہ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسے ہال ہوا و ہوس انسان مثلاً شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے نام نہاد صوفیا کے کسی کلام یا کسی قول کے بارہ میں اچھا خیال رکھے اور یہ کہے کہ یہ کلام معنوی ہے یا یہ کہے کہ فلاں قول ایسا ہے جس کے معنی صحیح ہیں تو اگر حقیقت میں وہ کلام و قول کفر آمیز ہو تو اس کے بارہ میں اچھا عقیدہ رکھنے والا اور اسے صحیح کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح " نوادر الفتاوی" میں منقول ہے کہ جو آدمی غیر مسلموں کی رسومات کو اچھا جانے وہ کافر ہو جاتا ہے۔" عمدۃ الاسلام" ' میں لکھا ہے کہ جو آدمی کافروں کی رسومات ادا کرے مثلاً نئے مکان میں بیل اور گائے اور گھوڑے کو زردو سرخ رنگ کرے یا بندھن دار باندھے تو کافر ہو جاتا ہے۔"
حاصل یہ کہ ان معتقدات و رسومات سے قطعاً احتراز کرنا چاہے جن سے اسلام اور شریعت کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو بلکہ ان کی بنیاد خالص غیر اسلامی و غیر شرعی چیزوں پر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں