مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز استسقاء کا بیان ۔ حدیث 1472

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقائ

راوی:

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ زَےْدٍص قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالنَّاسِ اِلَی الْمُصَلّٰی ےَسْتَسْقِیْ فَصَلّٰی بِھِمْ رَکْعَتَےْنِ جَھَرَ فِےْھِمَا بِالْقِرَآءَ ۃِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ ےَدْعُوْ وَرَفَعَ ےَدَےْہ وَحَوَّلَ رِدَآءَ ہُ حِےْنَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ہمراہ طلب بارش کے لئے عید گاہ تشریف لئے گئے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں دو رکعت نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قرأت فرمائی اور قبلہ رخ ہو کر دعا مانگی نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کے لئے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور قبلہ رخ ہوتے وقت اپنی چادر پھیر دی تھی۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
فائدہ : حضرت امام شافعی اور صاحبین (حضرت امام یوسف اور حضرت امام محمد ) کے نزدیک استسقاء کی نماز عید کی نماز کی طرح ہے اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ استسقاء کی دو رکعت نماز اسی طرح پڑھی جائے جیسا کہ دوسری نماز پڑھی جاتی ہے۔

نماز استسقاء کے بارہ میں حنفیہ کا مسلک

نماز استسقاء کے سلسلہ میں خود حنفیہ کے یہاں دو قول ہیں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ استسقاء نماز نہیں ہے بلکہ دعا و استغفار ہے وہ فرماتے ہیں کہ جن اکثر احادیث میں استسقاء کا ذکر آیا ہے ان میں نماز مذکور نہیں ہے بلکہ صرف دعا کرنا مذکور ہے۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں صحیح روایت منقول ہے ۔ کہ انہوں نے استسقاء کے لئے صرف دعا و استغفار پر اکتفا فرمایا نماز نہیں پڑھی، اگر اس سلسلہ میں نماز مسنون ہوتی تو وہ ترک نہ کرتے۔ اور ایسے ضروری مشہور واقعات کا انہیں معلوم نہ ہونا جب کہ زمانہ نبوت کو بھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے بعید ہے اور معلوم ہونے کی صورت میں اسے ترک کرنا حضرت عمر کیرضی اللہ تعالیٰ عنہ شان سے بعید تر ہے۔
صاحبین کا مسلک اس کے خلاف ہے ۔ ان حضرات کے نزدیک نہ صرف یہ کہ استسقاء کے لئے نماز منقول اور مسنون ہے بلکہ اس نماز میں جماعت اور خطبہ بھی مشروع ہے۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول لا صلوۃ فی الاستسقاء (یعنی استسقاء کے لئے نماز نہیں ہے ) کی مراد یہ ہے کہ اس نماز کے لئے جماعت خطبہ اور خصوصیت سنت و شرط نہیں، اگر ہر آدمی الگ الگ نفل نماز پڑھے اور دعا و استغفار کرے تو بہتر ہے ۔ اس وقت حنفیہ کے یہاں فتوی صاحبین کے قول پر ہے کیونکہ نماز استسقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور منقول ہے جس کا ایک واضح ثبوت مذکورہ بالا حدیث ہے۔
نماز استسقاء کے سلسلہ میں یہ افضل ہے کہ اس کی دونوں رکعتوں میں سے پہلی رکعت " سورت ق" یا سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں " اقتربت الساعۃ" یا سورت غاشیہ" کی قرأت کی جائے۔
" چادر پھیرنا " دراصل تغیر حالت کے لئے اچھا شگون لینے کے درجہ میں ہے جس طرح چادر الٹ پلٹ دی گئی ہے اسی طرح موجودہ حالت میں بھی تبدیلی اور تغیر ہو جائے بایں طور کہ قحط کے بدلہ ارزانی ہو جائے اور خشک سالی کی بجائے باران رحمت سے دنیا سیراب ہو جائے۔
چادر پھیرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے لے جا کر دائیں ہاتھ سے چادر کی بائیں جانب کے نیچے کا کونا پکڑا جائے اور بائیں ہاتھ سے چادر کی دائیں جانب کے نیچے کا کونا پکڑ لیا جائے پھر دونوں ہاتھوں کو پیٹھ کے پیچھے اس طرح پھیرا اور پلٹا جائے کہ دائیں ہاتھ چادر کا پکڑا ہوا کونا دائیں مونڈھے پر آجائے اور بائیں ہاتھ میں چادر کا پکڑا ہوا کونا بائیں مونڈھے پر آجائے اس طریقہ سے چادر کو دایاں کونا تو بائیں ہو جائے گا اور بایاں کونا دائیں ہو جائے گا ۔ نیز اور اوپر نیچے پہنچ جائے گا اور نیچے کا حصہ او پر جائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں