مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 17

احکامات اسلام

راوی:

وعن عبادة بن الصامت قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم وحوله عصابة من أصحابه : " بايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادكم ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم ولا تعصوا في معروف فمن وفى منكم فأجره على الله ومن أصاب من ذلك شيئا فعوقب به في الدنيا فهو كفارة له ومن أصاب من ذلك شيئا ثم ستره الله عليه في الدنيا فهو إلى الله : إن شاء عفا عنه وإن شاء عاقبه " فبايعناه على ذلك

" اور حضرت عبادہ بن صامت ( مشہور انصاری صحابہ میں سے ہیں جو بیعت عقبہ اولی و ثانیہ میں شریک تھے اہل صفہ کے معلم تھے ، آپ نے ٧٢ سال کی عمر پا کر ٤٣ھ میں وفات پائی )
فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی اس جماعت کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کر گرد بیٹھی ہوئی تھی (مخاطب کر کے) فرمایا۔ مجھ سے ان باتوں پر بیعت (عہد و اقرار) کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے (افلاس، بھوک یا غربت کے ڈر سے) اپنے بچوں کو قتل نہ کرو گے، جان بوجھ کر کسی پر بہتان تراشی نہ کرو گے اور شریعت کے مطابق تمہیں جو احکام دوں گا اس کی نافرمانی نہیں کرو گے پس تم میں سے جو آدمی اس عہد و اقرار کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے (کہ آخرت میں اپنے انعامات سے نوازے گا) اور جو آدمی (سوائے شرک کے) ان میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہو جائے اور پھر دنیا میں اس کو اس گناہ کی سزا بھی مل جائے (جیسے حد وغیرہ جاری ہو) تو یہ سزا
اس کے (گناہ) کے لئے کفارہ ہو جائے گی۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرنے والے کے گناہ کی ستر پوشی فرمائی (اور دنیا میں اسے سزا نہ ملی) تو اب یہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہوگا کہ چاہے تو وہ (ازراہ کرم) آخرت میں بھی درگزر فرمائے اور چاہے اسے عذاب دے (راوی فرماتے ہیں کہ ہم نے ان سب شرطوں پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

یہ حدیث شیئر کریں