مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 196

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم النَّاسُ مَعَادِنُ کَمَعَادِنِ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ خِےَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِےَّۃِ خِےَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقِھُوْا (صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ آدمی کان ہیں جس طرح سونے اور چاندی کی کان ہوتی ہے جو لوگ ایام جاہلیت میں بہتر تھے وہ زمانہ اسلام میں بہتر ہیں اگر وہ سمجھیں۔" (صحیح مسلم)

تشریح :
انسان کو معدن یعنی کان سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ تشبیہ نیک اخلاقی و عادات اور صفات و کمالات کی استعداد و صلاحیت کے تفاوت میں دی گئی ہے کہ جس طرح ایک کان میں لعل و یاقوت پیدا ہوتے ہیں تو دوسری کان میں سونا، چاندی اور بعض کان میں چونا، سرمہ ، پتھر وغیرہ ہی پیدا ہوتے ہیں اسی طرح انسان کی ذات ہے کہ بعض تو اپنے اخلاق و عادات اور صفات و کمالات کی بنا پر با عظمت اور با شوکت ہوتے ہیں بعض ان سے کچھ کم درجہ کے ہوتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان صفات میں انتہائی کمتر و بے وقعت ہوتے ہیں۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لانے سے پہلے حالت کفر میں بہترین خصائل و عادات کے مالک تھے مثلاً سخاوت و شجاعت، اخلاق و دیانتداری اور محبت و مروّت کی بہترین صفات سے متصف تھے تو وہ اسلام لانے کے بعد بھی ان صفات کی بناء پر بہترین قرار دئیے گئے ہیں۔
ٹھیک ایسے ہی جیسے کہ سونا اور چاندی جب تک کان میں پڑے رہتے ہیں کہ وہ خاک میں پڑے رہنے کی وجہ سے اپنی اصلی حالت میں نہیں ہوتے جب انہیں کان سے نکال لیا جاتا ہے اور بھٹی میں ڈال کر تیار کیا جاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی اصلی صورت میں آجاتے ہیں بلکہ ان کی آب و تاب میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب تک کوئی آدمی کفر کی ظلمت میں چھپا رہتا ہے تو خواہ وہ کتنا باوقار ہو اور اس کے اندر کتنی ہی سخاوت ہو کتنی ہی شجاعت ہو اسے برتری حاصل نہیں ہوتی، مگر جب کفر کے تمام پردوں کو چاک کر کے ظلم سے باہر نکلتا ہے اور ایمان و اسلام کو قبول کر کے علم دین میں کمال حاصل کر لیتا ہے اور پھر اپنے آپ کو ریاضت و مجاہد اور دینی محنت و مشقت کی بھٹیوں کے حوالہ کر دیتا ہے تو اس کے بعد نہ صرف یہ کہ وہ اپنی اصل حالت میں آجاتا ہے بلکہ علم و معرفت کی روشنی سے اس کا قلب و دماغ منوّر ہو جاتا ہے اور وہ عزت کی انتہائی بلندیوں پر جا پہنچتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں