مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 20

زمانہ کو برامت کہو

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ےُؤْذِےْنِیْ ابْنُ اٰدَمَ ےَسُبُّ الدَّھْرَ وَاَنَا الدَّھْرُ بِےَدِی الْاَمْرُ اُقَلِّبُ اللَّےْلَ وَالنَّھَارَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

" اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " ابن آدم (انسان) مجھے تکلیف دیتا ہے (اس طرح کہ) کہ وہ زمانے کو برا کہتا ہے حالانکہ زمانہ (کچھ نہیں وہ ) تو میں ہی ہوں، سب تصرفات میرے قبضہ میں ہیں اور شب و روز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے" ۔ (بخاری، مسلم)

تشریح
جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی پیدا کی ہوئی پریشانیوں اور مصیبتوں کو برائی کی صورت میں زمانہ اور وقت کے سر پر ڈال دیتے ہیں اور اپنی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکالتے ہیں " زمانہ خراب ہے، بہت برا وقت ہے" اس طرح وقت اور زمانہ کو برا کہنا نہایت غلط ہے کیونکہ زمانہ اور وقت تو کچھ بھی نہیں ہے، اصل متصرف حق تعالیٰ کی ذات ہے جس کے قبضہ میں لیل و نہار کی تبدیلی ہے اور اسی گردش لیل و نہار کا نام زمانہ اور وقت ہے، اگر زمانہ اور وقت کو متصرف سمجھ کر برا کہا جاتا ہے تو متصرف چونکہ اللہ تعالیٰ ہے اس لئے وہ برائی حق تعالیٰ کی طرف جاتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں