مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 268

پاکیزگی کا بیان

راوی:

عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِےْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِےْزَانَ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَےْنَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ وَالصَّلٰوۃُ نُوْرٌ وَّالصَّدَقَۃُ بُرْھَانٌ وَّالصَّبْرُ ضِےَآءٌ وَّالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ اَوْ عَلَےْکَ کُلُّ النَّاسِ ےَغْدُوْا فَبَآئِعٌ نَفْسَہُ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ تَمْلَاٰنِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ لَمْ اَجِدْ ھٰذِہِ الرَّوَایَۃَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ وَلَا فِیْ کِتَابِ الْحُمَیْدِیِّ وَلَا فِی الْجَامِعِ وَلٰکِنْ ذَکَرَھَا الدَّارِمِیُّ بَدَلَ سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ۔

" حضرت ابی مالک شعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( آپ کے نام میں اختلاف ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا نام کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے اور بعض کعب بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، عبیدہ ، حارث اور عمرو بھی بیان کئے جاتے ہیں، کنیت ابومالک ہے، مشہور صحابی ہیں۔ حضرت عمر فاروق اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور الحمد اللہ کہنا (اعمال کی) ترازو کو بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ و الحمد اللہ بھر دیتے ہیں یا فرمایا ایک کلمہ بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے نماز نور ہے صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے لئے یا تمہارے اوپر دلیل ہے ہر آدمی (جب) صبح کرتا ہے (یعنی سو کر اٹھتا ہے) تو اپنی جان کو اپنے کاموں میں بیچتا ہے (یعنی لگاتا) ہے لہٰذا وہ اپنی جان کو آزاد کرتا ہے یا ہلاک کرتا ہے۔ (مسلم اور ایک روایت میں ہے کہ لا الہٰ الا اللہ اکبر بھر دیتے ہیں اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔" (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ ) میں نے اس روایت کو نہ صحیح البخاری میں پایا ہے نہ مسلم میں اور نہ ہی کتاب حمیدی و کتاب جامع الاصول میں مجھے یہ روایت ملی ہے البتہ دارمی نے اس روایت کو بجائے سبحان اللہ والحمد اللہ کے ذکر کیا ہے۔" (لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو فصل اول میں نقل کرنا درست نہیں ہوا)۔"

تشریح :
اس حدیث میں پاکیزگی و طہارت کی انتہائی عظمت و فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام میں طہارت کو کیا مقام حاصل ہے چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور وجہ ظاہر ہے کہ ایمان سے چھوٹے اور بڑے سب ہی گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور وضو سے صرف چھوٹے گناہ ہی بخشے جاتے ہیں اس لئے طہارت کو آدھے ایمان کا درجہ حاصل ہے۔
درمیان روایت میں راوی کو شک ہو رہا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ تملاء مفرد فرمایا تملان تثنیہ کے ساتھ فرمایا ہے اس لئے انہوں نے دونوں کو نقل کر دیا ہے، اس جملہ کا مطلب ہے کہ سحان اللہ والحمد اللہ پڑھنا اور ان کا ورد رکھنا اتنی فضیلت کی بات ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر ان دونوں کلموں کو ایک جسم فرض کر لیا جائے تو اتنے عظیم ہیں کہ آسمان اور زمین کے درمیانی حصہ کو بھر دیں۔
نماز کو نور فرمایا گیا ہے اس لئے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جو قبر کے اندھیرے اور قیامت کی ظلمت میں روشنی کی مانند ہے جو مومن کو گناہوں اور بری باتوں سے بچاتی ہے اور نیکی و بھلائی اور ثواب کے کاموں کی طرف راہنمائی کرتی ہے یا پھر نماز کو نور اس لئے کہا گیا ہے کہ مومن کے قلب کو ذات الٰہی کے عرفان کی روشنی سے منور کرتی ہے اور عبادت الٰہی کی ادائیگی و اطاعت الہٰی کی بنا پر نماز پڑھنے والے کے چہرہ پر سعادت و نیک بختی کی چمک پیدا کرتی ہے۔
صدقہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو دلیل اس لئے کہا گیا ہے کہ مومن کے دعویٰ ایمان کی صداقت اور پروردگار عالم سے محبت پر دلالت کرتا ہے یا یہ معنی کہ جب قیامت میں مالدار سے اللہ سوال کرے گا کہ ہم نے تمہیں مال و دولت میں اتنی وسعت بخشی تھی تو تم نے اس مال و دولت کو کہاں خرچ کیا؟ اور اس کا مصرف کیا تھا ؟ یعنی تم نے ہماری بخشی ہوئی اس نعمت کو اچھی راہ میں خرچ کیا یا برے راستہ میں لٹا دیا؟ تو اس کے جواب میں صدقہ بطور دلیل پیش ہوگا کہ رب قدّوس تیرا دیا ہوا مال برے راستہ میں نہیں لٹایا گیا ہے بلکہ اسے تیری ہی راہ میں اور تیری ہی خوشنودی کے لئے خرچ کیا گیا ہے
صبر اس کو فرماتے ہیں کہ گناہوں سے بچا جائے، طاعات پر مستعد رہا جائے اور کسی مصیبت و تکلیف کے موقعہ پر آہ بکا اور جزع و فزع نہ کیا جائے چنانچہ اس کے بارہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ کامل روشنی کا سبب ہے اس لئے کے صابر کا قلب و دماغ ایمانی عزم و یقین کی روشنی سے ہمیشہ منور رہتا ہے اور وہ دین و دنیا کے ہر مرحلہ پر کامیاب ہوتا ہے۔
" قرآن کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ تمہارے لئے یا تمہارے او پر دلیل ہے یعنی تم قرآن پڑھو گے اور اس پر اگر عمل کرو گے تو قرآن تمہیں نفع بخشے گا اور اگر عمل نہ کرو گے تو تمہارے لئے ضرر کا باعث ہوگا۔
" جان کو بیچنے" کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس کام کی طرف آدمی متوجہ ہو اس میں اپنی ذات کو کھپا دے، اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھتا ہے تو اپنے کام میں لگ جاتا ہے اور دنیا میں مشغول ہو جاتا ہے لہٰذا اب اس نے اگر اس کام کے بدلے آخرت خرید لی بایں طور کہ اس کام پر آخرت کو ترجیح دی تو اس نے اپنے نفس کو عذاب آخرت سے آزاد کر لیا، اور اگر خدانخواستہ اس نے دنیا اور دنیا کے اس کام کو آخرت کے بدلے خرید لیا بایں طور کہ اس کام کو آخرت پر ترجیح دی تو اس نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا اور اپنے نفس کو عذاب میں ڈال دیا
بد نیا توانی کہ عقبے خری
بخر جان من ورنہ حسرت بری

یہ حدیث شیئر کریں