مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 273

پاکیزگی کا بیان

راوی:

وَعَنْہُ اَنَّہُ تَوَضَّاَ فَاَفْرَغَ عَلٰی ےَدَےْہِ ثَلٰثًا ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ ےَدَہُ الْےُمْنٰی اِلَی الْمِرْفَقِ ثَلٰثًا ثُمَّ غَسَلَ ےَدَہُ الْےُسْرٰی اِلَی الْمِرْفَقِ ثَلٰثًا ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہٖ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَہُ الْےُمْنٰی ثَلٰثًا ثُمَّ الْےُسْرٰی ثَلٰثًا ثُمَّ قَالَ رَأَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوْئِیْۤ ھٰذَا ثُمَّ قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ وُضُوْئِیْۤ ھَذٰا ثُمَّ ےُصَلِّیْ رَکْعَتَےْنِ لَا ےُحَدِّثُ نَفْسَہُ فِےْھِمَا بِشَیْءٍ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم ولفظہ للبخاری )

" حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ " انہوں نے ایک مرتبہ وضو کیا " چنانچہ انہوں نے پہلے اپنے ہاتھوں میں تین مرتبہ پانی ڈالا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک جھاڑی (یعنی ناک میں پانی دینے کے بعد ناک سن کی پھر تین مرتبہ منہ دھویا، پھر تین مرتبہ اپنا داہنا ہاتھ کہنی تک دھویا (یعنی کہنی سمیت دھویا) پھر تین مرتبہ اپنا بایاں ہاتھ کہنی تک دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پیر تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں پیر تین مرتبہ دھویا اور پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے جس طرح اب میں نے وضو کیا ہے" پھر فرمایا جو آدمی میرے اس وضو کی مانند وضو کرے (یعنی فرائض و سنن اور مستحبات و آداب کی رعایت کے ساتھ ) پھر دو رکعت نماز پڑھے اور نماز کے اندر اپنے دل سے کچھ باتیں نہ کرے (یعنی پورے دھیان سے نماز پڑے تو اس کے تمام پچھلے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) اس روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔"

تشریح :
اعضاء وضو کا تین مرتبہ سے زائد دوھونا تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پورے عضو تین مرتبہ دھو چکا ہے تو اب اس پر زیادتی نہ کرے یعنی تین بار سے زائد نہ دھوے اگر ایسی شکل ہے کہ ایک چلو سے آدھا عضو دھویا اور پھر دوسرے چلو سے آدھا دھویا تو یہ ایک مرتبہ ہی کہلائے گا مثلاً اسی طرح کسی عضو کو چھ چلوں سے دھو کر تین بار کو پورا کیا تو یہ زیادتی نہ ہوگی بلکہ تین مرتبہ ہی ہوگا وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا انتہائی درجہ نہیں ہے بلکہ ادنیٰ درجہ ہے اگر زیادہ بھی پڑھے تو افضل ہے بہر حال یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وضو کے بعد نماز یعنی تحیۃ الوضو پڑھنی مستحب ہے اگر فرض یا سنت مؤ کدہ ہی پڑھے تو یہ بھی کافی ہے۔
آخر حدیث میں اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ نماز میں حضور قلب اور خشوع و خضوع بہت زیادہ مطلوب ہے چنانچہ آخری جملہ کا یہ مطلب یہ ہے کہ جب نماز شروع کرے تو پھر اپنے دل کو نماز میں لگائے خیالات نماز سے باہر کہیں دوسری جگہ بھٹکنے نہ پائیں اور قلب میں دنیا کے خیالات او ایسے تفکرات کو جو نماز کے منافی ہیں جگہ نہ دے خیال اللہ ہی کی طرف لگائے رکھے اگر خطرات و وساوس دل میں آئیں تو ان کو دفع کر لے ہاں اگر دل میں ایسے خطرات پیدا ہوتے ہیں جو نماز میں حضور قلب کے منافی نہیں پھر کچھ مضر نہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں