مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 275

پاکیزگی کا بیان

راوی:

وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلممَامِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ یَتَوَضَّأُ فَیُبْلِغُ اَوْ فَیُسْبِغُ الْوُضْوْءَ ثُمَّ یَقُوْلُ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ وَفِیْ رَوَایَۃٍ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ اِلَّافُتِحَتْ لَہُ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ الثَّمَانِیَۃُ یَدْخُلُ مِنْ اَیِّھَا شَائَ۔ (ھٰکَذَا رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِیْ صَحِیْحِہِ)وَالْحَمَیْدِیُّ فِی اَفْرَادِ مُسْلِمِ وَکَذَا اِبْنُ الاثِیْرِ فِی جَامِعِ الْاَصُوْلِ وَذَکَر الشَّیْخُ مُحِیُّ الدِّیْنِ النُّووِیُّ فِی آخِرِ حَدِیْثِ مُسْلِمِ عَلَی مَارَوَیْنَاہُ وَزَادَ التِّرْمِذِیُّ اَللَّھُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابَیْنِ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ وَالْحَدِیْثُ الَّذِی رَوَاہُ لْمُحِّی الْسُنَّۃِ فِی الصِّحَاحِ مَنْ تَوَضَأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ اِلَی اٰخِرِہٖ رَوَاہُ الْتِرْمِذِیُّ فِی جَامِعِہٖ بِعَیْنِہٖ اِلَّا کَلِمَۃَ اَشْھَدُ قَبْلَ اَنَّ مُحَمَّدًا۔

" اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " تم میں جو آدمی وضو کرے اور (اس کی خوبیوں) کو انتہاء پر پہنچا دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے کہ اور پورا وضو کرے پھر کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ا ُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، (یعنی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں اور ایک روایت میں ہے (کہ اس طرح کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، یعنی میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور شہادت دیتا ہوں اس بات کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس دروازے میں سے اس کا جی چاہے جنت میں داخل ہو (مسلم ، حمیدی، جامع الاصول) اور امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسلم کی حدیث کے آخر میں جس کو ہم نے روایت کیا ہے کہ ذکر کیا ہے کہ جامع ترمذی نے (شہادتین پر اس دعا کے) یہ الفاظ زیادہ لکھے ہیں" اے اللہ ! مجھ کو توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر (یعنی مسلم کی روایت جس طرح ہم نے ذکر کی ہے وہی روایت امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسلم کی شرح میں نقل کی ہے اور اس کے آخر میں رواہ الجامع ترمذی الخ کی عبارت بڑھا دی ہے ) اور وہ حدیث جس کو امام محی السنتہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحاح میں روایت کی ہے یعنی مَنْ تَوَضَّأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ الخ (جس نے وضو کیا " آخر تک) اس کو
امام ترمذی نے رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی جامع میں بعینہ اسی طرح نقل کیا ہے اَنَّ مُحَمَّدًا سے پہلے اَشْھَدُ کا ذکر نہیں کیا ہے۔"

تشریح :
مراتب اور درجات کے اعتبار سے جنت کے آٹھ حصے ہیں چنانچہ اس حدیث میں " آٹھوں دروازوں" کا جو ذکر کیا گیا ہے ان سے حقیقۃً دروازے مراد نہیں بلکہ ان آٹھ حصوں کو ایک ہی اعتبار کیا ہے اور ہر ایک کو دروازے سے تعبیر کیا ہے کبھی ایک کو بھی بہشت فرماتے ہیں، اس حساب سے " ہشت بہشت" بولتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی الخ یعنی " اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا " کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں تو اس کی توفیق عنایت فرما کہ جب ہم سے کبھی بتقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور ہم سے کوئی لغزش ہو جائے تو ہم اس سے فورًا توبہ کر لیں اور اپنے عیوب سے رجوع کر لیں۔
اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سے گناہ زیادہ واقع ہوں بلکہ یہاں یہ مراد ہے کہ جب گناہ سرزد ہو جائے تو ہمارے دلوں میں توبہ کرنے کا داعیہ پیدا کر دے خواہ گناہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں تاکہ اس آیت کے مطابق تیرے پسندیدہ اور محبوب بندوں کی جماعت میں شامل ہو سکیں۔
(اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّ وَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ) 2۔ البقرۃ : 222)
" یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔"
یعنی اللہ اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو بارگاہ الوہیت سے منہ نہیں پھیرتے اور کسی موقعہ پر اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے دعا کے آخری جملہ " اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر" کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں باطنی پاکیزگی کی دولت سے نواز دے اور ہمارے اندر جتنے برے اخلاق اور بد خصائل ہیں سب سے ہمیں پاک و صاف کر دے چنانچہ اس طرف اشارہ ہے کہ جسم اور اعضاء ظاہری کی طہارت و صفائی ہمارے اختیار میں تھی اس کو ہم نے پورا کر لیا، اب باطنی احوال کی طہارت اور اندرونی صفائی تیرے ہاتھوں میں ہے لہٰذا اپنے فضل و کرم سے باطنی پاکیزگی بھی عنایت فرما دے۔
(رباعی)
اے درخم چوگان تو دل ہم چو گوے
بیروں نہ فرمان تو جاں یک سرموئے
" اے! کہ تیرے خم چوگان میں ہمارا دل ایک گیند کی طرح ہے، ہم تیرے فرمان سے ایک موئے بدن بھی باہر نہیں ہیں۔"
ظاہر کے بدست ماست شستیم تمام
باطن کہ بدست تست آن راہ تو بشوئے
" ظاہر جو ہمارے قبضہ میں تھا ہم اسے دھو چکے ہیں ۔ باطن جو تیرے قبضہ میں ہے اسے تو ہی دھو سکتا ہے۔"
آخر میں مشکوٰۃ کے مولف صاحب مصابیح پر ایک اعتراض فرما رہے ہیں، اعتراض یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے جو حدیث فاحسن الوضو ثم قال اشھد ان لا الہ الا اللہ وحد لا شریک لہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین فتحت لہ ثمانیۃ ابواب الجنۃ یدخل من ایھا شاء کو صحاح میں نقل کیا ہے حالانکہ اس حدیث کو صحاح میں نقل کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے بلکہ یہ روایت جامع ترمذی کی ہے، لہٰذا یہ روایت صحاح کے بجائے حسان میں نقل کرنی چاہئے تھی، پھر دوسری بات یہ ہے کہ جامع ترمذی نے بھی اپنی روایت میں ان محمدًا سے پہلے اشھد کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔
اتنی بات اور جان لینی چاہئے کہ جزری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حصن حصین میں ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، اور ابن سنّی کے حوالہ سے شہادتین کے بعد لفظ ثلاث مرات کا ذکر کیا ہے، یعنی شہادتیں تین مرتبہ پڑھنی چاہئے اور سنن نسائی و حاکم کی روایت میں اللھم اجعلنی الخ کے بعد یہ بھی منقول ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ لِہٰذَا اولیٰ اور بہتر ہے کہ جتنی دعائیں منقول ہیں وضو کے بعد سب ملا کر پڑھی جائیں نیز نہانے والے کے لئے بھی یہ دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں