مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تیمم کا بیان ۔ حدیث 493

تیمم کا بیان

راوی:

" تیمم" ( تیمم٥ھ میں مشروع ہوا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے : آیت (فَلَمْ تَجِدُوْا مَا ءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ) 5۔ المائدہ : 6) (تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین (کی جنس) پر سے (مار کر) پھیر لیا کرو" ) وضو اور غسل کا قائم مقام ہے۔ لغت میں تیمیم کے معنی 'قصد" کے آتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں تیمم سے مراد ہے پاک مٹی کا قصد کرنا یا اس چیز کا قصد کرنا جو مٹی کے قائم مقام ہو جیسے پتھر اور چونا وغیرہ اور طہارت کی نیت کے ساتھ اسے ہاتھ اور منہ پر ملنا۔
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تیمیم کے لئے دو ضربیں یا ایک ضرب ہے؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام ابویوسف، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ تیمم کے لئے دو ضربیں ہیں یعنی پاک مٹی یا اس کے قائم مقام مثلاً پاک چونے اور پتھر وغیرہ پر دو دفعہ ہاتھ مارنا چاہئے ایک ضرب تو منہ کے لئے ہے اور دوسری ضرب کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کے لیے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی مختار مسلک یہی ہے اور بعض حنابلہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
لیکن حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور مسلک اور حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قدیم قول یہ ہے کہ تیمیم ایک ہی ضرب ہے یعنی تیمم کرنے والے کو چاہئے کہ ایک ہی مرتبہ پاک مٹی وغیرہ پر ہاتھ مار کر اسے منہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر پھیر لے، حضرت امام اوزاعی، عطاء اور مکحول رحمہم اللہ تعالیٰ عیہم سے بھی یہی منقول ہے۔ دونوں فریقین کے مذہب و مسلک کی تائید میں احادیث منقول ہیں جو آگے انشاء اللہ آئیں گی اور جن کی حسب موقع فائدہ و توضیح بھی کی جائے گی۔ اس موقعہ پر مناسب ہے کہ تیمیم کے کچھ احکام اور وہ صورتیں ذکر کر دی جائیں جن میں تیمیم جائز ہے تیمم حسب ذیل صورتوں میں جائز ہوتا ہے۔
(١) اتنا پانی جو وضو اور غسل کے لئے کافی ہو اپنے پاس موجود نہ ہو بلکہ ایک میل یا ایک میل سے زائد فاصلے پر ہو۔
(٢) پانی جو موجود تو ہو مگر کسی کی امانت ہو یا کسی سے غصب کیا ہوا ہو۔
(٣) پانی کے نرخ کا معمول سے زیادہ گراں ہو جانا۔
(٤) پانی کی قیمت کا موجود نہ ہونا خواہ پانی قرض مل سکتا ہو یا نہیں، قرض لینے کے صورت میں اس پر قادر ہو یا نہ ہو، ہاں اگر اپنی ملکیت میں مال ہو اور ایک مدت معینہ کے وعدے پر قرض مل سکتا ہو تو قرض لے لینا چاہئے۔
(٥) پانی کے استعمال سے کسی مرض کے پیدا ہو جانے یا بڑھ جانے کا خوف ہو یا یہ خوف ہو کہ اگر پانی استعمال کیا جائے گا تو صحت یابی میں دیر ہو گی۔
(٦) سردی اس قدر شدید ہو کہ پانی کے استعمال سے کسی عضو کے ضائع ہو جانے یا کسی مرض کے پیدا ہو جانے کا خوف ہو اور گرم پانی ملنا ممکن نہ ہو۔
(٧) کسی دشمن یا درندے کا خوف ہو مثلاً پانی ایسی جگہ ہو جہاں درندے وغیرہ آتے ہوں یا موجود ہوں یا راستے میں چوروں کا خوف ہو، یا اپنے اوپر کسی کا قرض ہو، یا کسی سے عداوت اور یہ خیال ہو کہ اگر پانی لینے جاؤں گا تو قرض خواہ مجھ کو پکڑ لے گا، یا کسی قسم کی تکلیف دے گا، یا پانی کسی غنڈے اور فاسق کے پاس ہو اور عورت کو اس کے حاصل کرنے میں اپنی بے حرمتی کا خوف ہو۔
(٨) پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لئے رکھا ہو کہ اسے وضو یا غسل میں خرچ کر دیا جائے تو اس ضرورت میں حرج ہو مثلاً آٹا گوندھنے یا گوشت وغیرہ پکانے کے لئے رکھا ہو، یا پانی اس قدر ہو کہ اگر وضو غسل میں صرف کر دیا جائے تو پیاس کا خوف ہو خواہ اپنی پیاس کا یا کسی دوسرے کی پیاس کا، یا اپنے جانوروں کی پیاس کا، بشرطیکہ کوئی ایسی تدبیر نہ ہو سکے کہ مستعمل پانی جانوروں کے کام آسکے۔
(٩) کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور نہ کوئی کپڑا ہو کہ اسے کنوئیں میں ڈال کر تر کرے اور پھر اس سے نچوڑ کر طہارت حاصل کرے، یا پانی مٹکے وغیرہ میں ہو اور کوئی چیز پانی نکالنے کے لئے نہ ہو اور نہ مٹکا جھکا کر پانی لے سکتا ہو، نیز ہاتھ نجس ہوں اور کوئی دوسرا ایسا آدمی نہ ہو جو پانی نکال کر دے یا اس کے ہاتھ دھلا دے۔
(١٠) وضو یا غسل کرنے میں ایسی نماز کے چلے جانے کا خوف ہو جس کی قضا نہیں ہے جیسے عیدین یا جنازے کی نماز۔
(١١) پانی کا بھول جانا مثلاً کسی آدمی کے پاس پانی تو ہے مگر وہ اسے بھول گیا ہو اور اس کا خیال ہو کہ میرے پاس پانی نہیں ہے۔
تیمم کرنے کا مسنون و مستحب طریقہ درج ذیل ہے :
پہلے بسم اللہ پڑھ کر تیمم کی نیت کی جائے پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کسی ایسی مٹی پر جس کو نجاست نہ پہنچی ہو یا اس کی نجاست دھو کر زائل کر دی گئی ہو، ہتھیلیوں کی جانب سے کشادہ کر کے مار کر ملے اس کے بعد ہاتھوں کو اٹھا کر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور پھر پورے دونوں ہاتھوں کو اپنے پورے منہ پر ملے اس طرح کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہ جائے جہاں ہاتھ نہ پہنچے۔ پھر اسی طرح دونوں ہاتھوں کو مٹی پر مار کر ملے پھر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں سوائے کلمہ کی انگلی اور انگوٹھے کے، داہنے ہاتھ کے انگلیوں کے سرے پر پشت کی جانب رکھ کر کہنیوں تک کھینچ لائے اس طرح کہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی بھی لگ جائے اور کہنیوں کا مسح بھی ہو جائے پھر باقی انگلیوں کو اور ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسری جانب رکھ کر انگلیوں تک کھینچا جائے، اسی طرح بائیں ہاتھ کا بھی مسح کرے۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم کا یہی طریقہ ہے اور ایک ہی تیمم دونوں کے لئے کافی ہے۔ اگر دونوں کی نیت کرلی جائے۔
تیمم کے کچھ احکام و مسائل یہ ہیں۔
یہ تمام مسائل عبدالشکور لکھنوی کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
(١) تیمّم کے وقت نیت کرنا فرض ہے اور نیت کی شکل یہ ہے کہ جس حدیث کے سبب سے تیمم کیا جائے اس سے طہارت کی نیت کی جائے یا جس چیز کے لئے تیمم کیا جائے اس کی نیت کی جائے مثلاً اگر نماز جنازہ کے لئے تیمم کیا جائے یا قرآن مجید کی تلاوت کے لئے تیمم کیا جائے تو اس کی نیت کی جائے مگر نماز اسی تیمم سے صحیح ہوگی جس میں حدث سے طہارت کی نیت کی جائے یا کسی ایسی عبادت مقصودہ کی نیت کی جائے جو بغیر طہارت کے نہیں ہوسکتی۔
(٢) تیمم کرتے وقت اعضاء تیمم سے ایسی چیزوں کو دور کر دینا فرض ہے جس کی وجہ سے مٹی جسم تک نہ پہنچ سکے جیسے روغن یا چربی وغیرہ۔
(٣) تنگ انگوٹھی تنگ چھلوں اور چوڑیوں کو اتار ڈالنا واجب ہے۔
(٤) اگر کسی قرینے سے پانی کا قریب ہونا معلوم ہو تو اس کی تلاش میں سو قدم تک خود جانا یا کسی کو بھیجنا واجب ہے۔
(٥) اگر کسی دوسرے آدمی کے پاس پانی موجود ہو اور اس سے ملنے کی امید ہو تو اس سے طلب کرنا واجب ہے۔
(٦) اس ترتیب سے تیمم کرنا سنت ہے جس ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کیا ہے یعنی پہلے منہ کا مسح پھر دونوں ہاتھوں کا مسح۔
(٧) منہ کے مسح کے بعد داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے۔
(٨) جس آدمی کو آخر وقت تک پانی ملنے کا یقین یا گمان غالب ہو تو اس کو نماز کے اخیر وقت تک پانی کا انتظام کرنا مستحب ہے مثلاً کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور یہ یقن یا گمان غالب ہو کہ آخر وقت رسی اور ڈول مل جائیں گے۔ یا کوئی آدمی ریل پر سوار ہو اور یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ نماز کے آخر وقت ریل ایسے اسٹیشن پر پہنچ جائے گی جہاں پانی مل سکتا ہے۔
(٩) تیمم نماز کے وقت کے تنگ ہو جانے کی صورت میں واجب ہوتا ہے۔ شروع وقت میں واجب نہیں ہوتا۔
(١٠) نماز کا اس قدر وقت ملے کہ جس میں تیمم کر کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو تو تیمم واجب ہوتا ہے اور اگر وقت نہ ملے تو تیمم واجب نہیں۔
(١١) جن چیزوں کے لئے وضو فرض ہے ان کے لئے وضو کا تیمم بھی فرض ہے۔ اور جن چیزوں کے لئے وضو واجب ہے ان کے لئے وضو کا تیمم بھی واجب ہے اور جن چیزوں کے لئے وضو سنت یا مستحب ہے ان کے لئے وضو کا تیمم بھی سنت اور مستحب ہے، یہی حال غسل کا بھی ہے۔
(١٢) اگر کوئی آدمی حالت جنابت میں ہو اور مسجد میں جانے کی اسے سخت ضرورت ہو تو اس پر تیمم کرنا واجب ہے۔
(١٣) جن عبادتوں کے لئے حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حدث اصغر (یعنی جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) سے طہارت شرط نہیں ہے۔ جیسے سلام و سلام کا جواب وغیرہ ان کے لئے وضو و غسل دونوں کا تیمم بغیر عذر کے ہو سکتا ہے اور جن عبادتوں میں صرف حدث اصغر سے طہارت شرط نہ ہو جیسے تلاوت قرآن مجید اور اذان وغیرہ ان کے لئے صرف وضو کا تیمم بغیر عذر ہو سکتا ہے۔
(١٤) اگر کسی کے پاس مشکوک پانی ہو جیسے گدھے کا استعمال کردہ پانی تو ایسی حالت میں پہلے اگر وضو کی ضرورت ہو تو وضو، غسل کی ضرورت ہو تو غسل کیا جائے اس کے بعد تیمم کیا جائے۔
(١٥) اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے آدمیوں کی طرف سے ہو تو جب وہ عذر جاتا رہے تو جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ مثلاً کوئی آدمی جیل میں ہو اور جیل کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا کوئی آدمی اس سے کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو تجھ کو مار ڈالوں گا۔
(١٦) ایک جگہ سے اور ایک ڈھیلے سے چند آدمی یکے بعد دیگرے تیمم کریں تو درست ہے۔
(١٧) جو آدمی پانی اور مٹی دونوں پر قادر نہ ہو خواہ پانی و مٹی نہ ہونے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے تو اس کو چاہئے کہ نماز بلا طہارت پڑھ لے پھر اس نماز کو طہارت سے لوٹا لے مثلاً کوئی آدمی ریل میں سوار ہے اور نماز کا وقت ہوگیا ہے مگر نہ تو پانی موجود ہے کہ وہ وضو کرے اور نہ مٹی یا اس قسم کی کوئی دوسری چیز ہے جس سے وہ تیمم کر سکے، ادھر نماز کا وقت بھی ختم ہوا جا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ ایسی حالت میں بلا طہارت نماز پڑھ لے۔ اسی طرح کوئی آدمی جیل میں ہو اور وہ پاک پانی اور مٹی پر قادر نہ ہو تو وہ بے وضو اور بے تیمم نماز پڑھ لے گا مگر ان دونوں صورتوں میں نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں