مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تیمم کا بیان ۔ حدیث 494

تیمم کا بیان

راوی:

عَنْ حُذَےْفَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فُضِّلْنَا عَلَی النَّاسِ بِثَلٰثٍ جُعِلَتْ صُفُوفُنَا کَصُفُوْفِ الْمَلٰئِکَۃِ وَجُعِلَتْ لَنَا الْاَرْضُ کُلُّھَا مَسْجِدًا وَّجُعِلَتْ تُرْبَتُھَا لَنَا طُہُوْرًا اِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَآئَ۔(صحیح مسلم)

" حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " ہم لوگ (پہلی امتوں کے) لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دئیے گئے ہیں (١) ہماری صفیں (نماز میں یا جہاد میں) فرشتوں کی صفوں جیسی (شمار) کی گئی ہیں۔ (٢) ہمارے واسطے تمام زمین مسجد بنا دی گئی ہے (کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ لیں)۔ (٣) جس وقت ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لئے پاک کر دینے والی ہے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت سے پہلے دنیا میں جتنی بھی امتیں پیدا ہوئی ہیں، یوں تو ان سب کے مقابلہ میں یہ امت گوناگوں خصوصیات اور امیتازات کی بناء پر سب سے زیادہ افضل اور بزرگ ہے۔ عظمت و فضیلت میں کوئی امت اس امت سے مماثل نہیں ہے۔ مگر یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کی بعض امتیازی خصوصیات کی طرف جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس امت پر بے پایاں انعامات و احسانات کا نتیجہ ہیں اشارہ فرما رہے ہیں کہ ان چیزوں کے بناء پر میری امت کو دوسری امتوں پر خاص فضیلت و فوقیت دی گئی ہے۔ چنانچہ پہلی چیز تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ (نماز یا جہاد میں) اس امت کی صفیں فرشتوں کی صفیں جیسی (شمار) کی گئی ہیں یعنی جس طرح فرشتے صف بندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں کہ جس کی بناء پر انہیں مقام قرب میسر ہے اور بے انتہا بزرگی و سعادت حاصل ہوتی ہے اسی طرح اس امت کو بھی جہاد یا نماز میں صف بندی اور جماعت کی بناء پر اللہ تعالیٰ کا مقام قرب حاصل ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ امت سابقہ امتوں کے مقابلے میں افضل ہے کیونکہ سابقہ امتوں میں صف بندی اور جماعت نہیں تھی وہ لوگ جس طرح چاہتے نماز پڑھ لیتے مگر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو جماعت کا حکم دے کر گویا سعادت و نیک بختی کے اس عظیم راستہ پر لگا دیا کہ جماعت اور صف بندی کی جتنی زیادہ پابندی کی جائے گی سعادت و نیک بختی اور مقام قرب کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔
دوسری چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری امتوں کے مقابلہ میں اس امت پر یہ بھی بڑا احسان فرمایا اور اس کو فضیلت بخشی کہ اس امت کے لوگوں کے لئے تمام زمین کو سجدہ گاہ قرار دے دیا کہ بندہ زمین کے جس پاک حصے پر اللہ کے سامنے جھک جائے اور نماز ادا کرے اس کی نماز قبول کرلی جائے گی برخلاف اس کے کہ پچھلی امتوں کے لئے یہ سہولت اور فضیلت نہیں تھی ان لوگوں کی نماز " کنائس" اور " بیع" (جو پچھلی امتوں کے عبادت خانوں کے نام ہیں) اس کے علاوہ اور کہیں جائز نہ ہوتی تھی۔
تیسری چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ اس امت کے لئے تیمم کو جائز کر کے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دوسری امتوں پر عظیم فضیلت عنایت فرمائی ہے یعنی اگر پانی موجود نہ ہو یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو یا پانی کے استعمال سے معذور ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی جائے۔ نماز جائز ہو جائے گی۔
بہر حال۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تین چیزوں میں ہمیں دوسری امتوں کے مقابلہ میں فضیلت و بزرگی ہے کہ " ہمیں جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم ہوا اور اس پر بے شمار اجر و انعام اور ثواب کا وعدہ کیا گیا " ساری زمین ہمارے لئے مسجد قرار دی گئی کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ لیں، نماز جائز ہو جائے گی اور جہاں پانی نہ ملے یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لیں۔"
اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیمم صرف مٹی ہی سے کرنا چاہئے اور کسی چیز سے تیمم کرنا درست نہ ہوگا۔ جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ کا مسلک ہے ۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ، حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تیمم ہر اس چیز سے درست ہے جو زمین کی جنس سے ہو، زمین کی جنس کا اطلاق ان چیزوں پر ہوتا ہے جو نہ تو آگ میں جلنے سے پگھلیں نہ نرم ہوں اور نہ جل کر راکھ ہوں جیسے مٹی پتھر اور چونا وغیرہ ان حضرات کی دلیل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے جو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح البخاری میں منقول ہے کہ :
الحدیث (جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضِ مَسْجِدً اوَّطَھُوْرًا۔)
" یعنی زمین میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی کر دی گئی ہے۔"
اس ارشاد میں لفظ " ارض" کا استعمال کیا گیا ہے جو ہر اس چیز کے مفہوم کو ادا کرتا ہے جو زمین کی جنس سے ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں