مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 5

مومن اور مسلم کا مفہوم

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم " المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه " هذا لفظ البخاري ولمسلم قال : " إن رجلا سأل النبي صلى الله عليه و سلم : أي المسلمين خير ؟ قال : من سلم المسلمون من لسانه ويده "

" اور حضرت عبداللہ بن عمرو ( حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص جلیل القدر صحابی، رفیع المرتبت عالم، بلند پایہ مجاہد اور بڑے مرتبہ کے متقی و عابد تھے آپ مہاجرہیں۔ آپ کے سن وفات میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ تذکرۃ الحفاظ کی روایت کے مطابق مصر میں ٧٥ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا) سے مسلمان محفوظ رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے" ۔ یہ الفاظ صحیح البخاری کے ہیں اور مسلم نے اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ ایک آدمی نے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ مسلمانوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ ( کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔"

تشریح
حدیث کے پہلے جزء میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ " مومن اور مسلمان" محض اس چیز کا نام نہیں ہے کہ کوئی آدمی صرف کلمہ پڑھ لے اور کچھ متعین اعمال و ارکان ادا کرلے بلکہ اسلامی شریعت اپنے پیروؤں سے ایک ایسی بھر پور زندگی کا تقاضا کرتی ہے جس کا حامل ایک طرف عقائد و اعمال کے لحاظ سے اللہ کا " حقیقی بندہ" کہلانے کا مستحق ہو تو دوسری طرف وہ انسانیت کے تعلق سے پوری طرح امن و آشتی کا نمونہ اور محبت و مروت کا مظہر ہو، امن و امانت، اخلاق و رواداری، ہمدردی و خیر سگالی کا اپنی عملی زندگی میں اس طرح اظہار کرے کہ دنیا کا ہر انسان اس سے خوف زدہ رہنے کے بجائے اس کو اپنا ہمدرد ، بہی خواہ اور مشفق سمجھے، اور کیا مال کیا جان و آبرو، ہر معاملہ میں اس پر پورا اعتماد اور اطمینان رکھے۔
اس حدیث میں ہاتھ اور زبان کی تخصیص اس لئے ہے کہ عام طور پر ایذار سانی کے یہی دو ذریعے ہیں ورنہ یہاں ہر وہ چیز مراد ہے جس سے تکلیف پہنچ سکتی ہے خواہ وہ ہاتھ ہوں یا زبان یا کوئی دوسری چیز۔
حدیث کے دوسرے جزء میں " حقیقی مہاجر" کی تعریف کی گئی ہے یوں تو مہاجر ہر اس آدمی کو کہیں گے جس نے اللہ کی راہ میں اپنا وطن، اپنا گھر اور اپنا ملک چھوڑ کر دارالاسلام کو اپنا وطن بنا لیا ہو، اس قربانی کو اسلام عزت و قعت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس مہاجر کو بے شمار جزاء و انعام کا حقدار مانتا ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا اس ہجرت کے علاوہ ایک ہجرت اور ہے جس کا زندگی کے ساتھ دوامی تعلق رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے مومن ان سے پرہیز کرتا رہے اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نفسانی خواہشات کو بالکل ترک کرکے پاکیزہ نفسی اختیار کرے ، پس ایسا آدمی حقیقی مہاجر کہلانے کا مستحق ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں