مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ مستحاضہ کا بیان ۔ حدیث 528

مستحاضہ کا بیان

راوی:

وَعَنْ حَمْنَۃَ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَتْ کُنْتُ اُسْتَحَاضُ حَیْضَۃً کَثِیْرَۃً شَدِیْدَۃً فَاَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اَسْتَفْتِیْہٖ وَاُخْبِرُہُ فَوَجَدَتْہ، فِیْ اُخْتِی زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنِّی اُسْتَحَاضُ حَیْضَۃً کَثِیْرَۃً شَدِیْدَۃً فَمَاتَاْ مُرُنِیْ فِیْھَا قَدْ مَنَعَتْنِی الصَّلَاۃَ وَ الصِّیَامَ قَالَ اَنْعَتُ لَکَ الْکُرُسُفَ فَاِنَّہُ یُذْھِبُ الدَّمَ قَالَتْ ھُوَاکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ فَتَلَجِّمِی قَالَتْ ھُوَ اَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ فَاتَّخِذِی ثَوْبًا قَالَتْ ھُوَاَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ اِنَّمَا اَثُجُّ ثَجًا فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم سَاَمُرُکِ بِاَمْرَیْنِ اَیَّھُمَا صَنَعْتِ اَجْزَأَ عَنْکِ مِنَ الْاَخَرِ وَاِنْ قَوَیْتِ عَلَیْھِمَا فَاَنْتِ اَعْلَمُ قَالَ لَھَا اِنَّمَا ھٰذِہٖ رَکْضَۃُ مِنْ رَکْضَاتِ الشَّیْطَانِ فَتَحَیَّضِیْ سِتَّۃَ اَیَّامٍ اَوْسِبْعَۃَ اَیَّامٍ فِی عِلْمِ اﷲِ ثُمَّ اغْتَسِلِی حَتّٰی اِذَا رَأَیْتِ اَنَّکِ قَدْ طَھُرْتِ وَاسْتَنْقَاتِ فَسَلِّی ثَلَاثًا وَعِشْرَیْنِ لَیْلَۃً اَوْ اَرْبَعًا وَ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً وَاَیَّا مَھَا وَصُوْمِی فَاِنَّ ذٰلِکِ یُجْزِئُکِ وَکَذٰلِکِ فَافْعَلِی کُلَّ شَھْرٍ کَمَا تَحِیْضُ النِّسَاءُ وَکَمَا یَطْھُرْنَ مِیْقَاتَ حَیْضِھِنَّ وَطُھْرِ ھِنَّ وَاِنْ قَوَیْتِ عَلَی اَنْ تُؤَخِرِیْنَ الظُّھْرَ وَ تُعَجِّلِیْنَ الْعَصْرَ فَتَغْتَسِلِیْنَ وَ تَجْمَعِیْنَ بَیْنَ الصَّلاتَیْنِ الظُّھُرِ وَ الْعَصْرِ وَ تُؤَخِّرِیْنَ الْمَغْرِبَ وَ تُعَجِّلِیْنَ الْعِشَاءَ ثُمَّ تُغْتَسِلِیْنَ وَ تَجْمَعِیْنَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فَافْعَلِی وَ تَغْتَسِلِیْنَ مَعَ الْفَجْرِ فَافْعَلِی وَصُوْمِی اِنْ قَدَرْتِ عَلَی ذٰلِکِ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ ھٰذَا اَعْجَبُ الامْرَیْنِ اِلَّی۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤ د و الترمذی)

" اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ مجھے بہت ہی کثرت سے استحاضہ کا خون آتا تھا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دوں اور اس کا حکم پوچھوں چنانچہ میں اپنی بہن زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ !مجھے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت سے آتا ہے جس نے مجھے نماز روزے سے بھی روک رکھا ہے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے روئی کو بیان کرتا ہوں کیونکہ وہ خون کو لے جاتی ہے (یعنی خون نکلنے کی جگہ روئی رکھ لو تاکہ وہ باہر نہ نکلے ) حمنہ نے کہا کہ وہ تو (اس سے نہیں رکے گا کیونکہ) بہت زیاد ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (روئی رکھ کر) اس پر لگام کی طرح کپڑا (یعنی لنگوٹ) باندھ لو۔" انہوں نے کہا کہ " وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ) زیادہ ہے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر لنگوٹ کے نیچے) ایک کپڑا رکھ لو۔" انہوں نے کہا کہ " وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ بہت ہی زیادہ ہے یہاں تک کہ خون بارش کی (دھار) کی طرح آتا ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پھر تو میں تمہیں دو باتوں کا حکم کرتا ہوں ان میں سے تم جس ایک کو بھی اختیار کر لو گی دوسری کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر تمہارے اندر دونوں (پر عمل کرنے) کی طاقت ہوگی تو تم خود ہی دانا ہو (یعنی تم اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے جو چاہو کرو) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمنہ سے کہا کہ " یہ استحاضہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے لہٰذا تم (ہر مہینہ) چھ یا سات روز (کیونکہ غیب کا علم اللہ کو ہے) حیض کے ایام قرار دو اور پھر (مدت مذکورہ گزر جانے کے بعد) غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ میں پاک و صاف ہوگئی ہوں تو تیس دن رات (ایام حیض سات دن قرار دینے کی شکل میں) یا چوبیس دن رات (ایام حیض چھ دن قرار دینے کی شکل میں) نماز پڑھتی رہا کرو، اور اسی طرح مہینے رمضان وغیرہ کے ) روزے بھی رکھتی رہا کرو چنانچہ جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت پر ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں تم بھی ہر مہینہ اسی طرح کرتی رہا کرو" کہ چھ دن یا سات دن تو حیض کے ایام قرار دو اور بقیہ دن طہر یعنی پاکی کے ایام قرار دو ) تمہارے لئے یہ کافی ہوگا۔ اور اگر تمہارے اندر اتنی طاقت ہو کہ ظہر کے وقت میں تاخیر کر کے اس میں نہا لو اور عصر میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکٹھی پڑھ لو اور پھر مغرب کا وقت آخیر کر کے نہا لو اور عشاء میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکھٹی پڑھ لو اور نماز فجر کے لئے (علیحدہ) نہا لو تو اسی طرح کر لیا کرو ( جن دنوں میں نماز پڑھو ان دنوں میں نفل اور فرض جیسے بھی چاہو) روزے رکھ لیا کرو اور اگر تم میں اس کی طاقت ہو تو (اس طرح کرتی رہا کرو) پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں باتوں میں سے آخری بات مجھے بہت پسند ہے۔" (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)

تشریح
یوں تو استحاضہ کا خون آنا مرض کی بناء پر ہوتا ہے تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے کہ یہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بہکانے اور عبادت کے اندر خلل ڈالنے کے لئے شیطان کو موقع ملتا ہے چنانچہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکی و صفائی اور نماز وغیرہ میں فساد کا بیج بوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استخاضہ کی حقیقت بیان فرما کر سائلہ کو دو ایسے حکم دئیے جن پر عمل کرنے سے شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حکم تو یہ دیا کہ فَتَحَیْضِی سِتَّتِ اَیَّامٍ اَوْسَبْعَۃَ َایَّامٍ یعنی چھ روز یا سات روز حیض کے ایام قرار دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہر مہینے اپنی اوپر یہی عادت کے مطابق چھ دن یا سات دن تک حیض کے احکام جاری رکھ۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائلہ معتادہ تھی اور وہ حیض کے ایام بھول گئی تھی یعنی اسے یہ یاد نہیں رہا تھا کہ حیض کا خون ہر مہینے چھ دن آتا تھا یا ساتھ دن آتا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تم اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اگر تمہارا یقین یہ کہتا ہو کہ عادت چھ دن کی تھی تو اس صورت میں چھ دن حیض کے ایام قرار دو اگر اس بات کا گمان غالب ہو کہ عادت سات دن کی تھی تو پھر سات دن حیض کے ایام قرار دو پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فی علم اللہ فرما کر اس بات کا اشارہ کر دیا کہ تم بہر حال اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اس بات کا علم بہر صورت اللہ تعالیٰ کو ہے، کہ تمہاری عادت کیا تھی کیونکہ غیب کی باتوں کا جاننے والا تو وہی ہے۔ یا پھر ستۃ ایام اوسبعۃ ایام او اگر شک کے لئے ہو تو " فی علم اللہ " راوی کا قول ہوگا جو وا اللہ اعلم کے معنی میں ہوگا۔ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ستۃ ایام فرمایا ہے یا سبعہ ایام اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
آپ نے سائلہ سے جو یہ فرمایا کہ " جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت میں ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں۔ تم بھی اسی طرح ہر مہینہ کرتی رہا کرو۔" تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جیسے تمہاری طرح وہ عورتیں جو اپنی عادت کے دن بھول جاتی ہیں اور پھر وہ اپنے ایام ٹھہراتی ہیں تم اسی طرح اپنے ایام قرار دو یعنی اگر ان کے حیض کا وقت اول مہینہ ہے تو ایام حیض اول مہینے کو قرار دو اور اگر ان کے حیض کا وقت مہینے کے درمیان میں ہو تو تم بھی ایام حیض درمیان مہینے کو قرار دو اسی طرح اگر ان کے حیض کا وقت آخر مہینہ میں ہو تو تم آخر مہینے کو ایام حیض قرار دو۔
بہرحال۔ پہلے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنے حیض کی مدت خواہ وہ سات دن ہو یا چھ دن پوری کر کے اس کے بعد نہا ڈالو اور پھر ہر نماز کے لئے غسل کیا کرو۔
دوسرا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیا کہ " دو نمازوں کے درمیان ایسے وقت غسل کر لیا کرو کہ ایک نماز کا انتہائی وقت ہوا اور دوسری نماز کا ابتدائی وقت پھر اس کے بعد دونوں کو اکٹھی پڑھ لیا کرو اس طرح ظہر اور مغرب کو تاخیر کے ساتھ پڑھنے کے لئے جو کہا گیا ہے اس میں دو احتمال ہیں۔ اول تو اس " تاخیر" کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وقت ختم ہونے کے بعد نماز پڑھی جائے مثلاً ظہر اور عصر دونوں وقت کی نماز عصر ہی کے وقت میں پڑھی جائے۔ اسی طرح مغرب کی اور عشاء کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی جائی جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کہ مطابق مسافر دو نمازوں کو اس طرح جمع کر کے پڑھ سکتا ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ ظہر کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے ، اسی طرح مغرب کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عشاء کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے جیسا کہ حنفی مسلک میں مسافر کے لئے جمع بین الصلوتین کی یہی تاویل کی جاتی ہے اور اسے جمع صوری کہتے ہیں۔چنانچہ اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اسی مقصد و مراد کی وضاحت کر رہی ہے۔ پس اس دوسرے حکم کا حاصل یہ ہے کہ " روزانہ ایک غسل تو ظہر و عصر کے لئے کیا جائے اور ایک غسل مغرب و عشاء کے لئے اسی طرح ایک غسل فجر کے لئے کیا جائے۔
یہ بات سمجھ لیجئے کہ پہلے حکم کا خلاصہ کرتے ہوئے جو یہ بتایا گیا ہے کہ " ہر نماز کے لئے غسل کیا جائے۔" اس کی صراحت حدیث میں تو نہیں ہے لیکن ارشاد گرامی ان قویت علی ان تو خرین الخ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اس عبارت سے سائلہ کا ہر نماز کے لئے غسل سے عاجز ہونا ہی معلوم ہوتا ہے اور یہی مسلک حضرت امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ کا ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مسلک یہ ہے کہ دو نمازیں ایک غسل کے ساتھ اکٹھی پڑھی جائیں اور یہی مسلک اس حدیث سے زیادہ قریب اور مطابق ہے کیونکہ اس میں زیادہ آسانی ہے بہ نسبت اس کے کہ ہر نماز کے لئے غسل کیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا ہے کہ ھذا اعجب الامرین الی یعنی دونوں نمازوں کے لئے غسل کرنا مجھے دوسرے امر یعنی ہر نماز کے لئے غسل سے زیادہ پسند ہے۔" اور اس دوسرے حکم کو پسند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت شریفہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لئے وہی چیز پسند فرماتے تھے جو آسان اور سہل العمل ہو۔
جہاں تک حنفیہ کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہے یا یہ کہ دونوں صورتوں میں غسل کا حکم معالجہ پر معمول ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم اس لئے دیا ہے تاکہ خون کی کثرت اور اس کی شدت ختم ہوجائے۔

یہ حدیث شیئر کریں