مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 533

نماز کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ اِنَّ رَجُلًا اَصَابَ مِنِ امْرَاَۃٍ قُبْلَۃً فَاَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَخْبَرَہُ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی ''وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّےْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ ےُذْھِبْنَ السَّےِّئَاتِ '' (پ ١٢ رکوع ١٠) فَقَال الرَّجُلُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلِیْ ھٰذَا ؟قَالَ لِجَمِےْعِ اُمَّتِیْ کُلِّھِمْ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِّمَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ اُمَّتِیْ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی (غیر) عورت کا بوسہ لے لیا پھر (احساس ندامت و شرمندگی کے ساتھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صورت واقعہ کی خبر دی (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ وحی کے ذریعہ حکم الٰہی کے منتظر رہے اس اثناء میں اس آدمی نے نماز پڑھی جب ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ ) 11۔ہود : 114) اور نماز کو دن کے وقت اول و آخر اور رات کی چند ساعات میں پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں (یعنی نمازیں) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ آیت کے نازل ہونے کے بعد اس آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ حکم میرے لئے ہے ( یا پوری امت کے لیے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (نہیں ! یہ حکم) میری امت کے لئے ہے۔ ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب اس طرح مذکور ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) میری امت میں سے جو آدمی اس آیت پر عمل کرے اس کے لئے (یہی حکم ہے، یعنی جو آدمی بھی برائی کے بعد بھلائی کرے گا اسے یہی سعادت حاصل ہوگی کہ اس بھلائی کے نتیجے میں اس کی برائی ختم ہو جائے گی)۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
جس صاحب کا یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک غیر عورت کا بوسہ لے لیا تھا ان کا نام ابوالیسر تھا۔ جامع ترمذی نے ان کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ خود راوی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت کھجوریں خریدنے کے لئے آئی میں نے اس سے کہا کہ میرے گھر میں اس سے زیادہ اچھی کھجوریں رکھی ہوئی ہیں ( اس لئے تم وہاں چل کر دیکھ لو ) چنانچہ وہ میرے ہمراہ مکان میں آگئی (وہاں میں شیطان کے بہکانے میں آگیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر ) اس اجنبی عورت سے بوس و کنار کیا۔ اس نے (میرے اس غلط اور نازیبا رویے پر مجھے تنبیہ کرتے ہوئے ) کہا کہ بندہ خدا! اللہ (کے قہر و غضب ) سے ڈرو چنانچہ (خوف اللہ سے میرا دل تھرا گیا اور ) میں نہایت ہی شرمندہ و شرمسار ہو کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ چنانچہ بارگاہ رسالت میں ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
آیت کریمہ میں طرفی النھار یعنی دن کے اول و آخر سے دن کا ابتدائی حصہ اور انتہائی حصہ مراد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دن کے اول یعنی ابتدائی حصہ سے فجر کی نماز اور آخری حصہ سے ظہر و عصر کی نمازیں مراد ہیں اسی طرح زلفا من الیل یعنی رات کی چند ساعتوں سے مغرب و عشاء کا وقت مراد ہے ۔ اس طرح اب آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوگا " فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھا کرو، کیونکہ نیکیاں (نمازیں) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔"

یہ حدیث شیئر کریں