مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 534

نماز کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ جَآءَ رَجُلٌ فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَصَبْتُ حَدًّا فَاَقِمْہُ عَلَیَّ قَالَ وَلَمْ ےَسْئَلْہُ عَنْہُ وَحَضَرَتِ الصَّلٰوۃُ فَصَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا قَضَی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلٰوۃَ قَامَ الرَّجُلُ فَقَالَ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَصَبْتُ حَدًّا فَاَقِمْ فِیَّ کِتَابَ اللّٰہِ قَالَ اَلَےْسَ قَدْ صَلَّےْتَ مَعَنَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ غَفَرَ لَکَ ذَنْبَکَ اَوْحَدَّکَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! مجھ سے ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر حد جاری فرمائیے" راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد کے متعلق کچھ دریافت نہیں فرمایا اور نماز کا وقت آگیا۔ اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو چکے تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور پھر عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! مجھ سے ایک ایسا فعل سرزد ہوگیا ہے جو مستوجب حد ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بارے میں اللہ کا حکم نافذ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں! پڑھی ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے تمہاری خطاء یا فرمایا کہ تمہاری حد بخش دی ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھئے کہ اس آدمی کے الفاظ اَصَبْتُ حَدًّا (یعنی مجھ سے ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی ایسے کبیرہ گناہ مثلا ًچوری وغیرہ کا ارتکاب کیا تھا جس پر حد واجب ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی وجہ سے اس کی بخشش کی خوشخبری سنا دی لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ نماز کی وجہ سے کبیرہ گناہ بھی بخش دئیے جاتے ہیں۔
بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی ایسا گناہ صغیرہ سرزد ہو گیا تھا جو حقیقت میں تو ایسا نہیں تھا جس پر حد جاری ہوتی لیکن چونکہ وہ آدمی " صحابیت" جیسے مرتبہ پر فائز تھے جہاں معمولی سا گناہ بھی خوف الٰہی سے دل کو لرزاں کر دیتا ہے اور ایک ہلکی سی معصیت بھی قلب و دماغ کے ہر گوشہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اس لئے انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ مجھ سے ایک فعل سرزد ہو گیا ہے ۔ جس پر از روئے شریعت حد جاری ہو جائے گی لہٰذا انہوں نے بارگاہ رسالت میں آکر اس طرح ذکر کیا جس سے بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ ان سے واقعی کوئی ایسا بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے جو سخت ترین سزا یعنی حد کا مستوجب ہے ۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ حد سے ان کی مراد تعزیر تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے اس کے گناہ کی حقیقت اس لئے دریافت نہیں فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا تھا کہ اس آدمی نے کس قسم کا گناہ کیا ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس گناہ کی بخشش کی جو خوشخبری دی تھی اپنی طرف سے نہیں دی تھی بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اس کا گناہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس پر حد جاری کی جائے بلکہ ایسا گناہ ہے جو نماز کے ذریعے معاف ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ خوشخبری سنا دی۔

یہ حدیث شیئر کریں