مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 537

نماز کا بیان

راوی:

عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمخَمْسُ صَلَوَاتٍ اِفْتَرَضَھُنَّ اﷲُ تَعَالٰی مَنْ اَحْسَنَ وُضُوْ ئَھُنَّ وَصَلَّاھُنَّ لِوَقْتِھِنَّ وَاَتَمَّ رُکُوْعَھُنَّ وَخُشُوْعَھُنَّ کَانَ لَہ، عَلَی اﷲِ عَھْدٌ اَنْ یَّغْفِرْ لَہُ وَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ فَلَیْسَ لَہ، عَلَی اﷲِ عَھْدٌ اِنْ شَآءَ غَفَرَلَہ، وَاَنْ شَآءَ عَذَّبَہ،۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوادؤد و روی مالک والنسائی )

" حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے ان پانچوں نمازوں کے لئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے (فرائض و مستحبات کی ادائیگی کے ساتھ) اچھی طرح وضو کیا اور ان کو وقت پر پڑھا نیز ان میں رکوع و خشوع کیا (یعنی نمازیں حضوری قلب کے ساتھ پڑھیں ) تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ پر ذمہ (یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ) یہ ہے کہ وہ اس کے (صغیرہ) گناہ بخشش دے گا اور جس آدمی نے ایسا نہ کیا (یعنی اس نے مذکورہ بالا طریقے سے یا مطلق نماز نہ پڑھی) تو اللہ تعالیٰ اس کا ذمہ دار نہیں ہے چاہے تو بخش دے چاہے اسے عذاب میں مبتلا کرے۔" (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، مالک، سنن نسائی )

تشریح
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافر نہیں ہوتا بلکہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کے بارے میں بھی یہ سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ کو عذاب دے بلکہ اس کا دارومدار سراسر اس کی مرضی پر ہے کہ اگر وہ چاہے تو عذاب میں مبتلا کرے اور اگر چاہے تو اپنے فضل و کرم سے اسے بخشش دے۔
اسی طرح یہ بھی جان لیجئے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ اللہ کے حکم سے اسے جس مدت کے لئے دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کے بعد وہ اپنی سزا پوری کر کے جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہو جائے گا۔ چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں