مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 538

نماز کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِی اَمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَھْرَکُمْ وَادُّوْازَ کَاۃَ اَمْوَالِکُمْ وَاطِیْعُوْاذَا اَمْرِکُمْ تَدْ خُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ۔ (رواہ احمد بن حنبل والترمذی)

" اور حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ (مسلمانو) پانچوں وقت اپنی نمازیں پڑھو اپنے (رمضان کے مہینے) کے روزے رکھو! اپنے مال کی زکوۃ دو! اور اپنے سردار کی (جب تک کہ وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم نہ کرے) اطاعت کرو! (اگر ایسا کرو گے تو) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے (یعنی بہشت میں بلند درجات کے حقدار بنو گے)۔" (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی )

تشریح
سردار سے مراد بادشاہ، امیر اور حاکم ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بادشاہ اور امراء کے احکام کی تابعداری اور ان کے فرمان کی اطاعت کریں لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ اطاعت و فرمانبرداری کا یہ حکم اسی وقت تک رہے گا ۔ جب تک کہ ان کا کوئی حکم حدود و شریعت سے باہر اور خداوند کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف نہ ہو، اگر ایسا ہو کہ امراء اور سلاطین حدود شریعت سے تجاوز کر کے غلط احکام دیں یا ایسے فرمان نافذ کریں جو قرآن و سنت کے خلاف ہوں تو پھر نہ صرف یہ کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری نہیں ہے بلکہ ایسے سلاطین و امراء کو راہ راست پر لانے اور ان کو قرآن و سنت کو بتائے ہوئے راستوں پر چلنے اور ملک و قوم کو چلانے کے لئے مجبور کیا جائے۔
یا پھر " سردار" سے مراد علماء ہیں کہ قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کے علم کے حامل جب مسلمانوں کو کوئی شرعی حکم دیں اور انہیں دین و شریعت کی طرف بلائیں تو ان کی پیروی ہر ایک مسلمان پر ضروری اور لازم ہے اسی طرح " سردار" سے ہر وہ آدمی مراد ہو سکتا ہے جو کسی کام کے لئے حاکم اور کار ساز مقرر کیا گیا ہو یعنی اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو اپنے کسی معاملہ میں حاکم اور راہبر مقرر کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حاکم یا راہبر کے مشوروں کو مانے اور وہ جو صحیح حکم دے اس کی پابندی کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں