مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 618

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

راوی:

اذان اللہ تعالیٰ کے اذکار میں ایک بہت بڑے رتبے کا ذکر ہے اس میں تو حید اور رسالت کی شہادت اعلان کے ساتھ ہوتی ہے اس سے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اذان دینے کی فضیلت اور اس کا ثواب بہت زیادہ ہے چنانچہ اس عنوان کے تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ اذان دینا درحقیقت برکت و سعادت سے اپنا دامن بھرنا ہے۔
اب اس میں کلام ہے کہ آیا اذان کہنا زیادہ افضل ہے یا امامت کہنا؟ چنانچہ مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ یقین ہو کہ وہ امامت کے پورے حقوق بجا لائے گا تو اس کے لئے امامت کرنا افضل ہوگا ورنہ بصورت دیگر اس کے لئے اذان کہنا ہی افضل ہوگا۔
علماء کا اس معاملے میں اختلاف ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اذان کہی ہے یا نہیں؟ گو ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کہی ہے مگر بعض حضرات نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے کر اذان کہلائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو اس طرح تعبیر کیا گیا ہے جیسے کہ محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ نے قلعہ بنایا ہے حالانکہ بادشاہ خود اپنے ہاتھ سے قلعہ نہیں بناتا بلکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس نے حکم دے کر قلعہ بنوایا ہے ۔ دار قطنی کی ایک روایت میں اس کی تصریح بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کہنے کا حکم کیا تھا (نہ کہ خود اذان دی تھی) وا اللہ اعلم۔
اذان کا جواب دینا واجب ہے اگر کئی آدمی مل کر اذان دیں تو اس شکل میں حرمت اول کے لئے ہوگی یعنی اس کا جواب دینا چاہئے اور اگر کوئی آدمی کئی طرف سے یعنی مختلف محلوں کی مساجد سے اذان سنے تو صرف اپنی مسجد کے مؤذن کا جواب دینا واجب ہوگا اور اگر کوئی آدمی اذان کے وقت مسجد میں بیٹھا ہوا ہو تو اس کے لئے اذان کا جواب واجب نہیں ہے کیونکہ اس شکل میں تو اسے اجابت فعلی حاصل ہی ہے۔ اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے کہ قرآن پڑھنے والا آدمی اذان کا جواب دے یا نہ دے !چنانچہ اس سلسلے میں مختار قول یہ ہے کہ وہ اذان کا جواب نہ دے۔

یہ حدیث شیئر کریں