مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان ۔ حدیث 1083

احرام میں خوشبو لگانے کا مسئلہ

راوی:

عن عائشة رضي الله عنها قالت : كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه و سلم لإحرامه قبل أن يحرم ولحله قبل أن يطوف بالبيت بطيب فيه مسك كأني أنظر إلى وبيص الطيب في مفارق رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو محرم

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احرام کے لئے احرام باندھنے سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احرام سے نکلنے کے لئے طواف کعبہ سے پہلے خوشبو لگاتی تھی اور ایسی خوشبو لگتی تھی جس میں مشک ہوتا تھا گویا میں اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام باندھے ہوئے ہیں یعنی وہ چمک گویا میری آنکھوں تلے پھرتی ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب احرام کا ارادہ کرتے تو احرام باندھنے سے پہلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشبو لگاتی اور وہ خوشبو ایسی ہوتی جس میں مشک بھی ہوتا تھا۔ لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر خوشبو احرام سے پہلے لگائی جائے اور اس کا اثر احرام کے بعد بھی باقی رہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ خوشبو کا احرام کے بعد استعمال کرنا ممنوعات احرام سے ہے نہ کہ احرام سے پہلے۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ احرام کے بعد خوشبو استعمال کرنا ممنوع ہے احرام سے پہلے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کے ہاں احرام سے پہلے بھی ایسی خوشبو لگانا مکروہ ہے جس کا اثر احرام باندھنے کے بعد بھی باقی رہے۔
ولحلہ قبل ان یطوف بالبیت ( اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احرام سے نکلنے کے لئے الخ) کا مفہوم سمجھنے سے پہلے یہ تفصیل جان لینی چاہے کہ بقر عید کے روز (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) حاجی مزدلفہ سے منی میں آتے ہیں اور وہاں رمی جمرہ عقبہ (جمرہ عقبہ پر کنکر مارنے ) کے بعد احرام سے نکل آتے ہیں یعنی وہ تمام باتیں جو حالت احرام میں منع تھیں اب جائز ہو جاتی ہیں البتہ رفث (جماع کرنا یا عورت کے سامنے جماع کا ذکر اور شہوت انگیز باتیں کرنا) جائز نہیں ہوتا یہاں تک کہ جب مکہ واپس آتے ہیں اور طواف افاضہ کر لیتے ہیں تو رفث بھی جائز ہو جاتا ہے۔ لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب احرام سے نکل آتے یعنی مزدلفہ سے منی آ کر رمی جمرہ عقبہ سے فارغ ہو جاتے لیکن ابھی تک مکہ آ کر طواف افاضہ نہ کر چکے ہوتے تو میں اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشبو لگاتی تھی۔

یہ حدیث شیئر کریں