مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ حجۃ الوداع کے واقعہ کا بیان ۔ حدیث 1100

احرام کے طریقے اور حج کی اقسام

راوی:

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في حجة الوداع فمنا من أهل بعمرة ومنا من أهل بحج فلما قدمنا مكة قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من أهل بعمرة ولم يهد فليحلل ومن أحرم بعمرة وأهدى فليهل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منها " . وفي رواية : " فلا يحل حتى يحل بنحر هديه ومن أهل بحج فليتم حجه " . قالت : فحضت ولم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة فلم أزل حائضا حتى كان يوم عرفة ولم أهلل إلا بعمرة فأمرني النبي صلى الله عليه و سلم أن أنقض رأسي وأمتشط وأهل بالحج وأترك العمرة ففعلت حتى قضيت حجي بعث معي عبد الرحمن بن أبي بكر وأمرني أن أعتمر مكان عمرتي من التنعيم قالت : فطاف الذين كانوا أهلوا بالعمرة بالبيت وبين الصفا والمروة ثم حلوا ثم طافوا بعد أن رجعوا من منى وأما الذين جمعوا الحج والعمرة فإنما طافوا طوافا واحدا

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جحۃ الوداع کے موقع پر روانہ ہوئے تو ہم میں سے بعض تو وہ تھے جنہوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض وہ تھے جنہوں نے صرف حج کا (یا حج و عمرہ دونوں کا) احرام باندھا چنانچہ جب ہم مکہ پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا ہے اور اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لایا وہ افعال عمرہ کے بعد اپنے سر کے بال منڈوا کر یا کتروا کر، احرام کھول دے اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی کا جانور لایا ہے تو وہ عمرہ کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے یعنی حج کو عمرہ کے ساتھ شامل کر کے قارن ہو جائے اور جب حج و عمرہ دونوں سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ وہ (بقر عید کے دن) اپنی قربانی کے جانور کے ذبح کرنے سے فارغ نہ ہوئے احرام نہ کھولے اور جس نے حج کا احرام باندھا ہے خواہ وہ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہو یا نہ لایا ہو اور اس نے حج کے ساتھ عمرہ کا بھی احرام باندھا ہو یا نہ باندھا ہو وہ اپنا حج پورا کرے مگر جن لوگوں کو عمرہ کے ساتھ حج فسخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ گزشتہ روایت میں گزرا وہ اپنا حج پورا نہ کریں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ چونکہ میں حائضہ تھی اس لئے مکہ پہنچ کر نہ تو میں نے عمرہ کرنے کے لئے طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی ، میں حیض ہی کی حالت میں تھی کہ عرفہ کا دن آ گیا اور میں نے چونکہ عمرہ کا احرام باندھا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنا سر کھول ڈالوں اور بالوں میں کنگھی کر لوں یعنی احرام کھول دوں تاکہ جو چیزیں احرام کی حالت میں ممنوع ہیں وہ مباح ہو جائیں اور پھر حج کا احرام باندھ لوں، نیز یہ کہ عمرہ چھوڑ دوں یعنی حج سے فارغ ہو کر عمرہ کے احرام کی قضا کروں چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، اور جب میں حج ادا کر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمن بن ابوبکر کو تنعیم بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ مقام تنعیم سے احرام باندھ کر اپنے قضا شدہ عمرہ کے بدلے عمرہ کروں! حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ جن لوگوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا یعنی شروع ہی سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انہوں نے عمرہ کے لئے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی۔ اس کے بعد انہوں نے احرام کھول ڈالا لوگوں نے منی سے مکہ واپس آ کر دوبارہ اپنے حج کا طواف کیا جسے طواف افاضہ کہتے ہیں اور جن لوگوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا یعنی شروع میں سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا۔ یا بعد میں ایک کو دوسرے کے ساتھ شامل کیا۔ انہوں نے صرف ایک ہی یعنی یوم نحر کے دن طواف کیا۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
تنعیم ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ سے ڈھائی تین میل کے فاصلہ پر شمال مغربی جانب واقع ہے ۔ یہ جگہ حدود حرم سے باہر ہے حجاج عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے یہیں آ جاتے ہیں۔
عمرہ کے احرام کے لئے ضروری اور شرط ہے کہ حل سے یعنی حدود حرام سے باہر باندھا جائے عمرہ کرنے والا خواہ مکی ہو یا غیر مکی جب کہ حج کا احرام غیر مکی تو حل سے باندھے اور مکی حدود حرم ہی میں کہیں سے باندھے۔
" انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا " سے اگرچہ یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ قارن کو ایک طواف عمرہ اور حج دونوں کے لئے کافی ہے، جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے لیکن حنفیہ کے ہاں قارن کو دو طواف کرنے ضروری ہیں ایک طواف تو عمرہ کے لئے جو مکہ میں داخل ہونے کے بعد کیا جائے اور دوسرا طواف حج کے لئے وقوف عرفات کے بعد کیا جائے کیونکہ حدیث سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قارن تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو ایک طواف اس وقت کیا اور دوسری مرتبہ طواف الزیارۃ وقوف عرفات کے بعد کیا نیز دارقطنی نے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل بھی یہی ہے کہ قارن دو طواف کرے اور صفا و مروہ کے درمیان دو مرتبہ سعی کرے! حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی بات منقول ہے کہ قارن دو طواف اور دو مرتبہ سعی کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں