مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مکہ میں داخل ہونے اور طواف کرنے کا بیان ۔ حدیث 1108

طواف کے لئے پاکی واجب ہے

راوی:

وعن عروة بن الزبير قال : قد حج النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرتني عائشة أن أول شيء بدأ به حين قدم مكة أنه توضأ ثم طاف بالبيت ثم لم تكن عمرة ثم حج أبو بكر فكان أول شيء بدأ به الطواف بالبيت ثم لم تكن عمرة ثم عمر ثم عثمان مثل ذلك

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ پہنچ کر جو سب سے پہلے کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا (یعنی عمرہ کا طواف کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قارن یا متمتع تھے اور عمرہ نہیں ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا تو آپ نے بھی بیت اللہ کے طواف سے افعال حج کی ابتداء کی اور عمرہ نہیں ہوا، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اسی طرح کیا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ کا مطلب یہ ہے کہ مکہ پہنچ کر طواف بیت اللہ سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ وضو کیا، کیونکہ یہ بات پہلے ہی معلوم ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طویٰ میں غسل کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ غسل میں وضو بھی شامل ہوتا تھا ۔ طواف کے صحیح ہونے کے لئے طہارت یعنی پاکی جمہور علماء کے نزدیک تو شرط ہے لیکن حنفیہ کے ہاں شرط نہیں ہے البتہ واجب ہے۔
گزشتہ احادیث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ نے مکہ پہنچ کر عمرہ کیا، اس کے بعد جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے وہ تو احرام باندھے رہے اور جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ نہ لائے تھے انہوں نے احرام کھول دیا۔ لہٰذا " اور عمرہ نہ ہوا " کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کو فسخ یعنی موقوف کر کے عمرہ نہیں کیا اور احرام نہیں کھولا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ کے بعد احرام ہی کی حالت میں رہے کیونکہ قارن تھے اور پھر آخر میں قربانی کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام کھولا۔ لہٰذا راوی نے یہ بات اس لئے کہی تاکہ ان لوگوں کی تردید ہو جائے جو یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کو فسخ کر کے عمرہ کیا۔
یا پھر اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ ان سب نے حج کے بعد الگ سے اور عمرہ نہیں کیا بلکہ اسی عمرہ پر اکتفاء کیا جو حج کے ساتھ شامل تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں