مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مکہ میں داخل ہونے اور طواف کرنے کا بیان ۔ حدیث 1117

حائضہ طواف وسعی نہ کرے

راوی:

وعن عائشة قالت : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم لا نذكر إلا الحج فلما كنا بسرف طمثت فدخل النبي صلى الله عليه و سلم وأنا أبكي فقال : " لعلك نفست ؟ " قلت : نعم قال : " فإن ذلك شيء كتبه الله على بنات آدم فافعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري "

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوئے تو ہم لبیک کہتے وقت صرف حج کا ذکر کرتے تھے بعض حضرات نے یہ معنی لکھے ہیں کہ ہم صرف حج کا قصد کر تے تھے یعنی مقصود اصلی حج تھا عمرہ نہیں تھا، لہٰذا عمرہ کا ذکر نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ عمرہ نیت میں بھی نہیں تھا۔ پھر جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میرے ایام شروع ہو گئے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں اس خیال سے رو رہی تھی کہ حیض کی وجہ سے میں حج نہ کر پاؤں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری کیفیت دیکھ کر فرمایا کہ شاید تمہارے ایام شروع ہو گئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ تو ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لئے مقرر فرما دیا ہے اس کی وجہ سے رونے اور مضطرب ہونے کی کیا ضرورت ہے تم بھی وہی افعال کرو جو حاجی کرتے ہیں۔ ہاں جب تک پاک نہ ہو جاؤ (یعنی ایام ختم نہ ہو جائیں اور اس کے بعد نہا نہ لو۔ اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہ کرنا اور نہ سعی کرنا کیونکہ سعی طواف کے بعد ہی صحیح ہوتی ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
" سرف" ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے تقریبا چھ میل اور مقام تنعیم سے جانب شمال تین یا چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے، اس جگہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر ہے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح بھی اسی جگہ ہوا، شب زفاف بھی یہیں گزری اور انتقال بھی یہیں ہوا۔
اس حدیث کے پیش نظر ایک خلجان پیدا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہ الفاظ لا نذکر الا لحج (ہم صرف حج کا ذکر کرتے تھے) خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کی اس روایت کے بالکل متضاد ہیں جو گزشتہ باب میں (دو) گزر چکی ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بارہ میں یہ بتایا تھا کہ ولم اہلل الا بعمرۃ (یعنی میں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا) لہٰذا اس ظاہر تضاد کو دفع کرنے کے لئے یہ تاویل کی جائے گی کہ یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ لانذکر الا الحج کی مراد یہ ہے کہ اس سفر سے ہمارا اصل مقصد حج تھا اور چونکہ حج کی تین قسمیں ہیں یعنی افراد، تمتع اور قران ، اس لئے ہم میں سے بعض تو مفرد تھے اور بعض متمتع اور بعض قارن۔ میں نے تمتع کا قصد کیا تھا، چنانچہ میں نے میقات سے عمرہ کا احرام باندھا مگر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی میرے ایام شروع ہو گئے جس کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ عرفہ کا دن اور وقوف عرفات کا وقت آ گیا اور اس طرح عمرہ کا وقت گزر کر ایام حج شروع ہو گئے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں عمرہ کا احرام تو کھول دوں اور حج کا احرام باندھ لوں اور پھر طواف اور سعی کے علاوہ دیگر افعال حج کروں۔

یہ حدیث شیئر کریں