مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ وقوف عرفات کا بیان ۔ حدیث 1140

امام کے موقف سے بعد میں کوئی مضائقہ نہیں

راوی:

عن عمرو بن عبد الله بن صفوان عن خال له يقال له يزيد بن شيبان قال : كنا في موقف لنا بعرفة يباعده عمرو من موقف الإمام جدا فأتانا ابن مربع الأنصاري فقال : إني رسول رسول الله صلى الله عليه و سلم إليكم يقول لكم : " قفوا على مشاعركم فإنكم على إرث من إرث أبيكم إبراهيم عليه السلام " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه

حضرت عمرو بن عبداللہ بن صفوان (تابعی) اپنے ماموں سے کہ جن کا نام یزید بن شیبان تھا، نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ ہم میدان عرفات میں اس جگہ پر ٹھہرے ہوئے تھے جو ہمارے لئے متعین تھی۔ اور عمرو اس جگہ کو امام کے موقف (ٹھہرنے کی جگہ) سے بہت دور بیان کرتے تھے، چنانچہ ابن مربع الانصاری ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایلچی بن کر تمہارے پاس آیا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمہارے لئے یہ پیغام ہے کہ تم لوگ اپنے مشار (یعنی اپنی عبادت کی جگہ ) ٹھہرے رہو کیونکہ تم اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث (کی پیروی ) پر قائم ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ)

تشریح
عرب میں زمانہ اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ میدان عرفات میں ہر قبیلہ اور ہر قوم کے لئے الگ الگ ایک جگہ موقف کے لئے متعین ہوتی تھی، ہر شخص اسی جگہ وقوف کرتا جو اس کی قوم کے لئے متعین ہوتی، چنانچہ حضرت یزید بن شیبان کے قبیلہ کا موقف جس جگہ تھا وہ جگہ اس مقام سے بہت دور تھی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقوف فرمایا تھا، لہٰذا حدیث امام کے موقف سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موقف ہے۔
بہرکیف میدان عرفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس دوری اور بعد کی بنا پر یزید بن شیبان نے چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ عرض کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں بھی اپنے قریب ہی وقوف کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ اس بات کی درخواست کرنے والے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کے ذریعے کہ جن کا نام ابن مربع تھا یہ پیغام بھیجا کہ تم لوگ اپنے قدیمی موقف پر ہی وقوف کرو چنانچہ حدیث " مشاعر" سے مراد ان کا قدیمی موقف ہے اور تم لوگ اپنے اس موقف سے جو تمہارے دادا سے تمہارے لئے متعین چلا آ رہا ہے منتقل ہونے کی خواہش نہ کرو، کیونکہ اول تو پورا میدان عرفات موقف ہے۔ دوسرے یہ کہ میدان عرفات میں امام کے موقف کی دوری یا نزدیکی سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھر یہ کہ اگر ہر شخص یہی خواہش کرنے لگے کہ میں اپنے امام اور اپنے امیر کے قریب ہی وقوف کروں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات ان کی تسلی کے لئے کہلائی تاکہ آپس میں نزاع و اختلاف کی صورت پیدا نہ ہو جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں