مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان ۔ حدیث 1155

رمی جمار کے واسطے کنکریاں مزدلفہ یا راستہ سے لے لی جائیں

راوی:

وعن الفضل بن عباس وكان رديف النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال في عشية عرفة وغداة جمع للناس حين دفعوا : " عليكم بالسكينة " وهو كاف ناقته حتى دخل محسرا وهو من منى قال : " عليكم بحصى الخذف الذي يرمى به الجمرة " . وقال : لم يزل رسول الله صلى الله عليه و سلم يلبي حتى رمى الجمرة . رواه مسلم

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو (مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، بیان کیا کہ جب عرفہ کی شام کو (عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے) اور مزدلفہ کی صبح کو (مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے) لوگوں نے سواریوں کو تیزی سے ہانکنا اور مارنا شروع کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اطمینان وآہستگی کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے اور اس وقت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹنی کو روکے ہوئے بڑھا رہے تھے ، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادی محسر میں جو منیٰ (کے قریب مزدلفہ کے آخری حصہ ) میں ہے پہنچے تو فرمایا کہ تمہیں (اس میدان سے) خذف کی کنکریاں اٹھا لینی چاہئیں جو جمرہ (یعنی مناروں ) پر ماری جائیں گی۔ اور فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمی جمرہ تک برابر لبیک کہتے رہے تھے (یعنی جمرہ عقبہ پر پہلی کنکری ماری تو لبیک کہنا موقوف کر دیا)۔ (مسلم)

تشریح
عرفہ کے دن شام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میدان عرفات سے مزدلفہ کو چلے تو اس وقت حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔
" خذف" اصل میں تو چھوٹی کنکری یا کھجور کی گٹھلی دونوں شہادت کی انگلیوں میں رکھ کر پھینکنے کو کہتے ہیں۔ اور یہاں " خذف کی مانند کنکریوں" سے مراد یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں جو چنے کے برابر ہوتی ہیں یہاں سے اٹھا لو جو رمی جمار کے کام آئیں گی۔
اس بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ رمی جمار کے واسطے کنکریاں مزدلفہ سے روانگی کے وقت وہیں سے یا راستہ میں سے اور یا جہاں سے جی چاہے لے لی جائیں ہاں جمرہ کے پاس سے وہ کنکریاں نہ لی جائیں جو جمرہ پر ماری جا چکی ہیں کیونکہ یہ مکروہ ہے ویسے اگر کوئی شخص جمرہ کے پاس ہی سے پہلے پھینکی گئی کنکریاں اٹھا کر مارے تو یہ جائز تو ہو جائے گا مگر خلاف اولیٰ ہو گا۔ چنانچہ شمنی نے شرح نقایہ میں لکھا ہے کہ ان کنکریوں سے رمی کافی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا برا ہے۔
اس بارہ میں بھی اختلافی اقوال ہیں کہ کنکریاں کتنی اٹھائی جائیں ؟ آیا صرف اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے لئے سات کنکریاں اٹھائی جائیں یا ستر کنکریاں اٹھائی جائیں جن میں سات تو اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے کام آئیں اور تریسٹھ بعد کے تینوں دنوں میں تینوں جمرات پر پھینکی جائیں گی۔

یہ حدیث شیئر کریں