مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مناروں پر کنکریاں پھینکنے کا بیان ۔ حدیث 1172

جمرات پر وقوف

راوی:

عن نافع قال : إن ابن عمر كان يقف عند الجمرتين الأوليين وقوفا طويلا يكبر الله ويسبحه ويحمده ويدعو الله ولا يقف عند جمرة العقبة . رواه مالك

حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے دونوں مناروں کے نزدیک بہت دیر تک ٹھہرتے اور (وہاں اللہ کی تکبیر، اللہ کی تسبیح اور اللہ کی تحمید میں مشغول رہتے، نیز (ہاتھ اٹھا کر) اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے اور جمرہ عقبہ کے پاس نہیں ٹھہرتے تھے۔ (مالک)

تشریح
پہلے دونوں مناروں سے مراد جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ان دونوں جمروں پر رمی کر چکے تو وہاں ٹھہر کر دعا وغیرہ میں مشغول رہتے، چنانچہ ان جمرات پر وقوف کرنا اور وقوف کے دوران دعا و زاری اور تسبیحات وغیرہ میں مشغول رہنا مسنون ہے۔ مدت وقوف کے بارہ میں علماء نے لکھا ہے کہ ان جمرات پر اتنی دیر تک ٹھہرنا چاہئے جتنی دیر میں سورت بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ ویسے بعض اہل اللہ کے بارہ میں تو یہ منقول ہے کہ وہ ان جمرات پر اتنی دیر تک کھڑے رہے ہیں کہ ان کے پاؤں ورم کر گئے تھے۔
" اور جمرہ عقبہ کے پاس نہیں ٹھہرتے تھے" کا مطلب یہ ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعا کے لئے اس جمرہ پر نہ تو قربانی کے دن ٹھہرتے تھے اور نہ دوسرے ہی دنوں میں وقوف کرتے تھے تاہم اس سے دعا کا بالکل ترک کرنا لازم نہیں آتا۔ باب النحر میں وہ روایت آئے گی جس میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ وضاحت کی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں