مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ حرم مکہ کی حرمت کا بیان ۔ حدیث 1264

حرم مکہ (اللہ تعالیٰ اس کی حرمت کو آفات سے محفوظ رکھے) کی حرمت کا بیان

راوی:

" حرم " ' زمین کے اس قطعہ کو کہتے ہیں جو کعبہ اور مکہ کے گرداگرد ہے۔! اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی عظمت کے سبب اس زمین کو بھی معظم و مکرم کیا ہے ۔ اس زمین کو حرم اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین کی بزرگی کی وجہ سے اس کی حدود میں ایسی بہت سی چیزیں حرام قرار دی ہیں جو اور جگہ حرام نہیں ہیں۔ مثلاً حدود حرم میں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور جانوروں کو ستانا وغیرہ درست نہیں ۔!بعض علماء کہتے ہیں کہ زمین کا یہ حصہ حرم اس طرح مقرر ہوا کہ جب حضرت آدم زمین پر اتارے گئے تو شیاطین سے ڈرتے تھے کہ مجھے ہلاک نہ کر ڈالیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت و نگہبانی کے لئے فرشتوں کو بھیجا ان فرشتوں نے مکہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا لہٰذا مکہ کے گرداگرد جہاں جہاں فرشتوں نے کھڑے ہو کر حد بندی کی وہ حرم کی حد مقرر ہوئی اور اس طرح کعبہ مکرمہ اور ان فرشتوں کے کھڑے ہونے کی جگہ کے درمیان جو زمین آ گئی، وہ حرم ہوئی۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم نے جب کعبہ بناتے وقت حجر اسود رکھا تو اس کی وجہ سے ہر چہار طرف کی زمین روشن ہو گئی چنانچہ اس کی روشنی اس زمین کے چاروں طرف جہاں جہاں تک پہنچی وہیں حرم کی حد مقرر ہوئی زمین حرم کے حدود یہ ہیں، مدینہ منورہ کی طرف تین میل (مقام تنعیم تک) یمن، طائف، جعرانہ اور جدہ کی طرف سات سات میل بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ جدہ کی طرف دس میل اور جعرانہ کی طرف نو میل۔ چاروں طرف جہاں جہاں حرم کی زمین ختم ہوتی ہے ۔ وہاں حدود کی علامت کے طور پر برجیاں بنی ہوئی ہیں مگر جدہ اور جعرانہ کی طرف برجیاں نہیں ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں