مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت پر رونے کا بیان ۔ حدیث 208

باب سے متعلق کچھ احکام ومسائل

راوی:

کسی کے انتقال پر نوحہ اور چلائے بغیر رونا مکروہ نہیں ہے چلا کر اور نوحہ کے ساتھ رونا نیز میت کی زائد اور دوراز حقیقت تعریف توصیف بیان کرنا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں مروج تھا مکروہ ہے البتہ میت کی واقعی اور حقیقی تعریف و توصیف بطور بیان کے ذکر کرنا مکروہ نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کے لواحقین سے اس کی تعزیت کرنی مستحب اور بڑی اچھی بات ہے اور تعزیت کا مفہوم یہ ہے کہ لواحقین کو صبر سکون کی تلقین کی جائے اور انہیں تسلی تشفی دی جائے۔ ایک سے زائد مرتبہ تعزیت نہ کی جائے انتقال کے تیسرے روز بطور خاص میت کے گھر جمع ہونا، کھانا پینا کرنا اور دوسری رسوم ادا کرنا کہ جسے ہماے یہاں تیجہ کہتے ہیں قطعی طور پر بدعت اور حرام ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ شریعت میں ان باتوں کی حقیقت نہیں ہے بلکہ میت کی وصیت کے بغیر اس کا مال خرچ کرنا یتیموں اور ورثاء کے مال میں تصرف کرنا جو بالکل ناجائز ہے۔
قاموس کے مصنف مجدد الدین نے سفر السعادۃ میں لکھا ہے کہ پہلے میت کے لئے صرف یہ طریقہ تھا کہ لوگ نماز جنازہ کے لئے جمع ہوتے تھے لہٰذا اب یہ طریقہ دن اور رات متعین کر کے اور غیر ضروری تکلفات کر کے قرآن خوانی اور ختم وغیرہ کے لئے قبر پر یا کسی دوسری جگہ لوگوں کو جمع کرنا بدعت ہے۔
تعزیت قبول کرنے کے لئے گھر میں یا مسجد میں بیٹھے رہنا جائز ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ جب حضرت جعفر، حضرت زید اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع ملی یہ تینوں حضرات غزوہ موت میں یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے ہیں تو آپ انتہائی رنج و غم کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھ گئے وہیں تعزیت کرنے والے آتے اور آپ سے تعزیت کر کے چلے جاتے ہاں متعین دنوں اور متعین تاریخوں میں تعزیت کا وہ طور طریقہ جو بعد میں رائج ہو گیا اس وقت نہیں تھا۔
بعد کے بہت سے علماء لکھتے ہیں کہ (دفن کے بعد) میت کے گھر تعزیت کے لئے بطور خاص جمع ہونا مکروہ ہے اور یہ بات تو سخت مکروہ ہے کہ میت کے اہل و عیال صرف اسی مقصد کے لئے گھر کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور لوگ وہاں جمع ہو کر تعزیت کریں کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ اس بارہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر چکیں تو منتشر ہو جائیں اور اپنے اپنے کام کاج میں لگ جائیں اسی طرح میت کے اہل و عیال کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہو جائیں۔ اسی طرح قبر کے چاروں طرف حلقہ باندھ کر قرآن خوانی مکروہ ہے۔
تعزیت کرنے کا وقت مرنے کے بعد صرف تین دن تک ہے تین دن کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے ہاں اگر تعزیت کرنے والا یا غمزدہ موجود نہ ہو تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جب بھی ملاقات ہو اسی وقت تعزیت ادا کی جائے۔
میت کو دفن کرنے کے بعد تعزیت کرنا دفن سے پہلے تعزیت کرنے سے اولیٰ ہے مگر یہ سلسلہ اس صورت میں ہے جب کہ میت کے اہل و عیال میں بہت زیادہ جزع فزع اور اظہار رنج و غم زیادہ شدید نہ ہو۔ اگر اہل و عیال زیادہ جزع و فزع میں مبتلا ہوں تو پھر دفن سے پہلے ہی تعزیت اولیٰ ہو گی۔
عمومی طور پر میت کے تمام اقا رب خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا عورت سب ہی سے تعزیت کرنا مستحب ہے ہاں اگر عورت جوان ہو تو اس سے تعزیت نہ کی جائے، البتہ اس عورت کے محرم اس سے بھی تعزیت کر سکتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں