مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت پر رونے کا بیان ۔ حدیث 210

صاحبزادے کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غم

راوی:

عن أنس قال : دخلنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم على أبي سيف القين وكان ظئرا لإبراهيم فأخذ رسول الله صلى الله عليه و سلم إبراهيم فقبله وشمه ثم دخلنا عليه بعد ذلك وإبراهيم يجود بنفسه فجعلت عينا رسول الله صلى الله عليه و سلم تذرفان . فقال له عبد الرحمن بن عوف : وأنت يا رسول الله ؟ فقال : " يا ابن عوف إنها رحمة ثم أتبعها بأخرى فقال : إن العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول إلا ما يرضي ربنا وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے گھر گئے جو (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم کی دایہ کے شوہر تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابراہیم کو (گود میں) لے کر بوسہ لیا اور سونگھا (یعنی اپنا منہ اور ناک ان کے منہ پر اس طرح رکھی جیسے کوئی خوشبو سونگھتا ہے) اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد ہم پھر ابوسیف کے یہاں گئے جب کہ حضرت ابراہیم حالت نزع میں تھے چنانچہ (ان کی حالت دیکھ کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، حضرت عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں! آپ نے فرمایا اے ابن عوف (آنسو کا بہنا ) رحمت ہے۔ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں آنسو بہانے لگیں آپ نے فرمایا آنکھیں آنسو بہا رہی اور دل غمگین ہے مگر اس کے باوجود ہماری زبانوں پر وہی الفاظ ہیں جن سے ہمارا پروردگار راضی رہے اے ابراہیم ہم تیری جدائی سے بے شک غمگین ہیں۔

تشریح
ابوسیف کا نام براء تھا اور ان کی بیوی کا نام خولہ منذر تھا جو انصاریہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی دایہ تھیں ان کا گھرانہ پیشہ کے لحاظ سے لوہا تھا۔ حضرت ابراہیم صرف سولہ سترہ مہینے کے تھے کہ انتقال کر گئے چنانچہ اس حدیث میں ان کی حالت بیماری و نزع کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی دایہ کے گھر گئے اور انہیں گود میں لے کر پیار کیا اور جب ان کا آخری وقت دیکھا تو رونے لگے اسی وجہ سے حضرت عبدالرحمن نے عرض کیا کہ اس قسم کے رقت انگیز مواقع پر لوگ تو روتے ہی ہیں مگر آپ کی عظمت شان اور کمال معرفت سے یہ بعید ہے کہ آپ روئیں۔ اس کا جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیا کہ یہ رحمت ہے۔ یعنی میری آنکھیں بے صبری کی وجہ سے آنسو نہیں بہا رہی ہیں جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بچہ کو اس حالت میں دیکھ کر جذبہ رحم امنڈ رہا ہے جو آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے بہہ رہا ہے ۔
دل غمگین ہے ، میں اس طرح اشارہ ہے کہ جو شخص ایسے موقع پر بھی غمگین نہ ہو اور اس کا دل غم کی کسک محسوس نہ کرے اس کے سینہ میں دھڑکتا ہوا دل نہیں ہے بلکہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہے جب کہ نظروں کے سامنے لخت جگر دم توڑ رہا ہو ایسے نازک موقع پر بھی آنکھیں آنسو نہ بہائیں تو یہ صبر و ضبط نہیں ہے بلکہ اس احساس محبت و مروت اور جذبہ ترحم کا فقدان ہے لہٰذا یہ حال یعنی غمگین ہونا اہل کمال کے نزدیک کامل تر ہے یہ بنسبت اس چیز کے کہ بچہ کی موت ہو جائے اور چہرہ پر بشاشت و اطمینان کی لہریں دوڑ رہی ہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں