مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت پر رونے کا بیان ۔ حدیث 212

باآواز بلند رونا برا ہے

راوی:

وعن عبد الله بن عمر قال : اشتكى سعد بن عبادة شكوى له فأتاه النبي صلى الله عليه و سلم يعوده مع عبد الرحمن بن عوف وسعد بن أبي وقاص وعبد الله بن مسعود فلما دخل عليه وجده في غاشية فقال : ( قد قضى ؟ قالوا : لا يا رسول الله فبكى النبي صلى الله عليه و سلم فلما رأى القوم بكاء النبي صلى الله عليه و سلم بكوا فقال : ألا تسمعون ؟ إن الله لا يعذب بدمع العين ولا بحزن القلب ولكن يعذب بهذا وأشار إلى لسانه أو يرحم وإن الميت لعيذب ببكاء أهله

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن مسعود بھی آپ کے ساتھ تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس پہنچے تو انہیں بے ہوشی کی حالت پایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ان کا انتقال ہو گیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (سعد کی حالت دیکھ) رونے لگے جب صحابہ نے آپ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے پھر آپ نے فرمایا۔ اچھی طرح سن لو ! کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسو بہانے اور دل کے غمگین ہونے پر عذاب نہیں کرتا آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا البتہ اللہ اس کی وجہ سے عذاب بھی کرتا ہے اور رحم بھی یعنی اگر کسی حادثہ و مصیبت کے وقت زبان سے ناشکری کے یا بارگاہ الوہیت میں بے ادبی کے الفاظ نکلیں یا نوحہ کر کے رویا جائے تو یہ مستحق عذاب ہے اور اگر ایسے موقع پر زبان حمد و شکر میں مشغول رہے اور انا للہ پڑھا جائے تو مستحق رحمت و ثواب ہے نیز مردہ کو اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر مردہ کے اہل و عیال اور اس کے گھر والے باآواز بلند یعنی پکار پکار روتے ہیں یا نوحہ کرتے ہیں تو اس مردہ کو عذاب ہوتا ہے، اس مسئلہ کی تحقیق تیسری فصل میں آئے گی انشاء اللہ۔

یہ حدیث شیئر کریں