مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت پر رونے کا بیان ۔ حدیث 216

نوحہ کی برائی

راوی:

وعن أنس قال : مر النبي صلى الله عليه و سلم بامرأة تبكي عند قبر فقال : " اتقي الله واصبري " قالت : إليك عني فأنك لم تصب بمصيبتي ولم تعرفه فقيل لها : إنه النبي صلى الله عليه و سلم . فأتت باب النبي صلى الله عليه و سلم فلم تجد عنده بوابين فقالت : لم أعرفك . فقال : " إنما الصبر عند الصدمة الأولى "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے قریب چلا چلا کر رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے عذاب سے ڈرو! یعنی نوحہ نہ کرو ورنہ عذاب میں مبتلا کی جاؤ گی۔ اور صبر کرو! اس عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانا نہیں آپ کا ارشاد سن کر کہنے لگی کہ میرے پاس سے دور ہٹو، تم میرا غم کیا جانو کیونکہ تم میری مصیبت میں گرفتار نہیں ہوئے ہو۔ (جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے چلے آئے) تو اسے بتایا گیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے (پھر کیا تھا) وہ (بھاگی ہوئی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دردولت پر حاضر ہوئی اسے دروازہ پر کوئی دربان و پہرہ دار نہیں ملا (جیسا کہ بادشاہوں اور امیروں کے دروازوں پر دربان و پہرہ دار ہوتے ہیں (پھر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میری گستاخی معاف فرمائیے) میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ صبر تو وہی کہلائے گا جو ابتداء مصیبت میں ہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
کتنا سچ اور مبنی برحقیقت ہے کہ جو بات کہی جا رہی ہے اسے دیکھو نہ دیکھو کہ بات کہنے والا کون ہے؟ اس قول پر عمل نہ صرف یہ کہ سچائی اور نیکی کی راہیں روشن کرتا چلا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات خجالت و شرمندی سے بچاتا بھی ہے۔ اسی واقعہ پر نظر ڈالیے ایک عورت ایک غلط کام کر رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے نیکی و بھلائی کے راستہ پر لگانے کے لئے کچ ارشاد فرما رہے ہیں وہ عورت اتفاق سے آپ کو پہچانتی نہیں نہ صرف یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے اعراض کرتی ہے بلکہ ایک غلط جواب بھی دیتی ہے جب بعد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ سے وہ قیمتی بات کہنے والا کوئی ایرا خیرا نہیں تھا بلکہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی تو اب اسے احساس ہوتا ہے کہ واقعی میں غلطی میں مبتلا تھی پشیمان ہو کر بھاگی ہو در رسالت پر حاضر ہوتی ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہے۔
اب دیکھیے اگر وہ اس عارفانہ قول کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانے بغیر آپ کے ارشاد گرامی کے سامنے سر اطاعت خم کر دیتی تو نہ صرف یہ کہ نیکی و بھلائی کے راستہ کو اسی وقت پا لیتی بلکہ بعد کی خجالت و شرمندگی سے بھی بچ جاتی۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ کامل اور پسندیدہ صبر کہ جس پر ثواب ملتا ہے وہی ہوتا ہے جو ایذاء و مصیبت میں کیا جائے ورنہ آخر میں تو خود بخود صبر آ جاتا ہے بعد میں کسی نے صبر کیا تو کیا صبر کیا؟۔

یہ حدیث شیئر کریں