مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ قبروں کی زیارت کا بیان ۔ حدیث 253

زیارت قبور مستحب ہے

راوی:

عن بريدة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها ونهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث فأمسكوا ما بدا لكم ونهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء فاشربوا في الأسقية كلها ولا تشربوا مسكرا " . رواه مسلم

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پہلے تو میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کر دیا تھے مگر اب تم قبروں کی زیارت کر لیا کرو ، اسی طرح میں قربانی کا گوشت تین سے زیادہ رکھ کر کھانے سے منع کیا تھا اور اب تم جب چاہو اسے کھاؤ نیز میں نے نیند کو سوائے مشک کے دوسرے برتنوں میں رکھ کر پینے سے منع کیا تھا اب تم جن برتنوں میں چاہو سب میں پی لیا کرو لیکن نشہ کی کوئی چیز کبھی نہ پینا (مسلم)

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتداء اسلام میں قبروں پر جانے سے منع فرما دیا تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت قریب تھا اس لئے یہ اندیشہ ہوا کہ شاید لوگ قبروں پر جا کر کفر و شرک کی باتیں نہ کرنے لگیں جب آپ نے دیکھ لیا کہ اسلام نے دلوں میں رسوخ حاصل کر لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت قبور کی اجازت دیدی لہٰذا تمام علماء کے نزدیک قبروں کی زیارت مستحب ہے کیونکہ قبروں پر جانے سے دل میں نرمی آتی ہے موت یاد آتی ہے اور دل و دماغ اس عقیدہ پر پختہ ہوتے ہیں کہ دنیا فانی ہے اس کے علاوہ اور بہت سے فائدے ہیں پھر سب سے بہتر فائدہ یہ بھی ہے کہ قبروں پر جانے سے مردوں کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کا موقع ملتا ہے جو سنت ہے ، چنانچہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع تشریف لے جاتے اور وہاں کے مردوں پر سلام پیش فرماتے نیز ان کے لئے دعائے مغفرت فرماتے۔

یہ حدیث شیئر کریں